Home » , » جبل استقامت مولانامحمد اعظم طارق حالات و واقعات

جبل استقامت مولانامحمد اعظم طارق حالات و واقعات





بسم اللہ الرحمن الرحیم
جبل استقامت مولانامحمد اعظم طارق
حالات و واقعات
یہ 28مارچ 1961ء تھا۔ ضلع ساہیوال کی تحصیل چیچہ وطنی کے نواحی گاؤں 111/7R میں حاجی فتح محمد کے گھر ایک نومولود بچے نے آنکھ کھولی، اس بچے کا نام’’ محمداعظم‘‘ تجویز ہوا۔ یہی بچہ آگے چل کر’’ محمد اعظم طارق‘‘ کہلایا اور بلاشبہ لاکھوں سنیوں کے دلوں کی دھڑکن قرار پایا۔ تحفظ ناموسِ صحابہؓ سے وابستہ افراد کی آرزوؤں کا مرکز، چاہتوں کا محور، اکابرین کی آنکھوں کا تارا، بوڑھوں کا سہارا، ماؤں کا بیٹا، بہنوں کا ویر، جسے دیکھ کر ضعیف العمر، جواں، بچے سبھی پکار اُٹھتے تھے’’سنیوں کا وزیراعظم، طارق اعظم طارق اعظم‘‘!
آپؒ 1976ء تک اپنے آبائی دینی ادارے ’’انوارالاسلام‘‘ میں رہ کر عصری تعلیم پرائمری کے ساتھ ساتھ قرآن کریم بھی حفظ کرچکے تھے۔ 1977ء میں ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ابتدائی فارسی اور مڈل تک تعلیم حاصل کرچکے تھے۔ چیچہ وطنی کے دینی ادارے تجوید القرآن میں عربی، فقہ، حدیث، فلسفہ، منطق کے حصول کی خاطر داخلہ لیا۔ 1980ء میں جامعہ عربیہ چنیوٹ میں داخل ہوئے، یہاں عالم عربی اور فاضل عربی کا کورس مکمل کیا۔ مدرسہ عربیہ نعمانیہ کمالیہ میں فقہ، حدیث، ادب، علم الکلام کی تمام بڑی کتب کی تعلیم حاصل کی۔ 1984ء میں جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی سے دورہ حدیث کیااور سند فراغت حاصل کی۔ ایم اے عربی اور ایم اے اسلامیات کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔
کراچی میں رہ کر ہی جامعہ محمودیہ کے صدر مدرس و ناظم اعلیٰ کی حیثیت سے خدمات پیش کیں۔ خطابت کا آغاز جامع مسجد صدیق اکبرؓناگن چورنگی کراچی سے کیا۔ آپ کی شادی فروری 1979ء میں دورانِ تعلیم ہی کردی گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو چار بیٹوں اور چار ہی بیٹیوں سے نوازا۔
یہ 1984ء کی بات ہے۔ آپ تعلیم سے فارغ التحصیل ہوچکے تھے۔ حقوق اہل سنت والجماعت کے لئے ’’جمعیت نوجوانانِ اہل سنت‘‘ کے نام سے متحرک ہوئے۔ اس جماعت کے اغراض و مقاصد بھی قریباً وہی تھے جو سپاہِ صحابہؓ کے تھے۔ 6 ستمبر 1985ء کو مولانا حق نواز جھنگوی شہید ؒ نے سپاہِ صحابہؓ کی بنیاد رکھی تو آپ ان سے بے حد متاثر ہوئے۔ چنانچہ آپؒ نے اپریل 1987ء میں باقاعدہ طور پر سپاہِ صحابہؓ سے وابستہ ہونے کا اعلان کردیا۔ ابتدأ میں کراچی اورپورے سندھ میں آپ نے اپنی صلاحیتیوں کا لوہا منوایا۔ امیر عزیمت مولانا حق نواز جھنگوی کی شہادت کے بعد اگرچہ مولانا محمد اعظم طارق کو مرکزی ڈپٹی سیکرٹری منتخب کرلیا گیا تھا، تاہم ان کی تنظیمی سرگرمیوں کا مرکز و محور کراچی ہی رہا۔
10جنوری 1991ء کو سپاہِ صحابہؓ کے نائب سربراہ اور ایم این اے مولانا ایثار القاسمی کو جھنگ میں شہیدکردیا گیا، ان کی جانشینی کے لئے 20جنوری 1991ء کو جامعہ فرقانیہ کوہاٹی بازار راولپنڈی میں مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں مولانا محمد اعظم طارق اور علامہ علی شیر حیدری کا نام سامنے آیا، دونوں حضرات نے اپنا اپنا ووٹ ایک دوسرے کے حق میں استعمال کیا،تاہم قرعہ انتخاب ’’جبل استقامت‘‘ کے حق میں نکل آیا۔ مولانامحمد اعظم طارق نے ساتھ ہی یہ شرط عائد کردی کہ مجھے کراچی چھوڑنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ لیکن بعد کے حالات اور جھنگ کے احباب کی محبت نے کراچی چھوڑنے پر مجبور کردیا اور یوں پھر جھنگ کے ہوکر ہی رہ گئے!مولانا محمد اعظم طارق نے 4مارچ 1992ء میں قومی و صوبائی اسمبلی جھنگ کا الیکشن حکومتی پریشر اور سرکاری وزرأ کی جھنگ میں آمد کے باوجود بڑی آسانی سے جیت کر دنیائے رافضیت کو حیران کردیا۔ قومی اسمبلی میں آپ کی پہلی تقریر اس قدر پُرجوش اور مؤثر تھی کہ ارکانِ اسمبلی ایک ایک جملے پر ڈیسک بجارہے تھے جبکہ حکومتی وزرأ انگشتِ بدنداں رہ گئے!
مولانا محمد اعظم طارق کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے۔ آپ ک شب و روز مشن تحفظ ناموسِ صحابہؓ کے لئے وقف تھے۔ مصائب و آلام کی وادیاں ان کے عزمِ مصمم کے سامنے گردِ سفر تھیں۔ جو لوگ مولانا محمد اعظم طارق کے ساتھ محو سفر رہے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ آپ کس قدر تکمیل مشن کے لئے بے تاب تھے۔ ان کا جرم بس یہی تھا کہ وہ صحابہ کرامؓ کے سچّے سپاہی تھے۔ اس جرم کی پاداش میں سالہا سال پس دیوارِ زنداں رہنا پڑا، دشمنانِ صحابہؓ نے آپ پر قاتلانہ حملوں کی انتہا کردی لیکن آپ کے موقف میں رتی برابر فرق نہ آیا۔ آپ صحابہ کرامؓ کے دشمنوں کو للکارتے، جھاڑتے، لتاڑتے، شیروں کی طرح گرجتے، برستے، بجلی کی طرح دشمنوں پر کڑکتے ہوئے آقائے نامدار حضرت محمدمصطفی ﷺ کی مقدس، مطہر اور پاکیزہ جماعت صحابہ کرامؓ کا دفاع کرتے ہوئے شہادت جیسی عظیم نعمت سے سرفراز ہوگئے!
قارئین محترم! جرنیل سپاہِ صحابہؓ ، جبل استقامت، مردِ آہن، ثانی امام احمد بن حنبل کی زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہوئے اپنے ایمان کو جِلا بخشیں اور تحفظ ناموسِ اصحابِؓ رسول ﷺ کے لئے کمربستہ ہوجائیں۔
’’جبل استقامت‘‘ کی حیاتِ مبارکہ سپاہِ صحابہؓ سے وابستگی
مولانا محمد اعظم طارق شہید ؒ سپاہِ صحابہؓ کے ساتھ شروع ہی میں وابستہ ہوگئے تھے۔آپ نے کراچی کی سطح پر ، پھر سندھ کی حدود تک کام کرنے کی ذمہ داری امیر عزیمت مولانا حق نواز جھنگوی شہید ؒ کی زندگی کے آخری لمحات تک نبھانے کا سلسلہ بڑے احسن طریقے سے جاری رکھا۔ مولانا حق نواز جھنگوی شہید ؒ کی شہادت کے بعد آپ کو مرکزی ڈپٹی سیکرٹری منتخب کرلیا گیا تھا۔ لیکن آپ کی تنظیمی سرگرمیوں کا مرکز و محور کراچی اور سندھ ہی رہا۔
۱۰ جنوری ۱۹۹۱ء کو جرنیل سپاہِ صحابہؓ مولانا ایثارالقاسمی ایم۔ این۔ اے کی شہادت کے بعد جو خلاء پیدا ہوگیا تھا، اُسے پُر کرنے کے لئے ۲۰ جنوری ۱۹۹۱ء کو جامعہ فرقانیہ کوہاٹی بازار راولپنڈی میں مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں مولانا محمد اعظم طارق شہید ؒ یا مولانا علامہ علی شیر حیدری کے لئے حضرت قاسمی شہید ؒ کی جانشینی کا منصب سنبھالنے پر رائے شماری ہوئی۔ 
حیرت انگیز بات یہ تھی کہ ان دونوں حضرات میں سے کوئی بھی اپنے آپ کو اس منصب کی ذمہ داری کا بوجھ اُٹھانے کے قابل نہ سمجھتا تھا۔ لیکن ان کے انکار کو ہی ان کی لیاقت و عظمت کی دلیل بنالیا گیا۔ مذکورہ دونوں حضرات میں سے ہر ایک نے اپنا ووٹ دوسرے کے حق میں استعمال کیا تاکہ اس منصب پر میری بجائے وہ آجائے۔ قرعہ انتخاب چونکہ مولانا محمد اعظم طارق شہید ؒ کے حق میں نکل آیاتھا،لہٰذا آپ ؒ نے ساتھ ہی یہ شرط عائد کردی۔’’ مجھے کراچی چھوڑنے پر مجبور نہ کیا جائے۔‘‘
جھنگ والوں کا خلوص اور والد محترم کی رائے
جب تک آپ جھنگ نہیں آئے تھے، یہ سب باتیں ہوتی رہیں۔ لیکن اہل جھنگ نے جب پیار، خلوص، محبت اور چاہت سے نوازا تو پھر آپ اہل جھنگ کو چھوڑ کر کہاں جاسکتے تھے۔ پھر تو یوں ہوا کہ کہنے لگے۔’’زندگی مشن جھنگوی کی امانت ہے اور جسم سرزمین جھنگ کی امانت ہے۔‘‘
آپ کے والد محترم نے فرمایا
’’بیٹا! جب تک کوئی مجاہد میدانِ جنگ میں نہیں اُترتا، اس وقت تک اس کے پاس سوچنے ، سمجھنے اور کوئی دوسرا راستہ اختیار کرنے کا جواز ہوتا ہے۔ لیکن جب وہ میدانِ کارزار میں اُترآئے تو پھر اسے فرار کی راہ اختیار نہیں کرنی چاہئے۔لہٰذا اب تم ڈٹ جاؤ اور کسی بات کی فکر نہ کرو۔ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ جس ذات برحق نے پہلے تمہاری اغواء کرنے والوں کے نرغہ سے جان بچائی اور گولیاں مارنے والوں کے عزائم کو ناکام بنایا، وہ ذات اَب بھی تمہاری حفاظت کرے گی۔‘‘
امیر عزیمت کا پہلا یومِ شہادت
۲۲ فروری ۱۹۹۱ء بانی سپاہِ صحابہؓ امیر عزیمت مولانا حق نواز جھنگوی شہید ؒ کا یومِ شہادت تھا۔ ۱۰ جنوری ۱۹۹۱ء کوسپاہِ صحابہؓ کے نائب سرپرست اعلیٰ اور ممبر قومی اسمبلی مولانا ایثارالقاسمی کی شہادت کا المناک واقعہ پیش آیا۔ ۲۰ جنوری کو راولپنڈی میں منعقدہ مجلس شوریٰ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ’’انٹرنیشنل حق نواز شہید ؒ کانفرنس‘‘ کا انعقاد ۲ جون کو کیا جائے گا۔ تاہم ۲۲ فروری کو لاہور میں ’’حق نواز شہید ؒ سیمینار‘‘ کا اہتمام کیا جائے۔ چنانچہ ۲۲ فروری کو فلیٹیز ہوٹل لاہور میں ایک سادہ مگر پُروقار سیمینار کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں ممتاز مذہبی سکالرز، علماء کرام، صحافی حضرات، سیاستدانوں اور تمام مسلم مکاتب فکر کے اہم رہنماؤں نے بھرپور شرکت کی۔
عمرہ کے لئے پہلا سفر
کراچی ڈویژن کے عہدیدار راشد صاحب کے ہمراہ عمرہ کے پہلے سفر پر جانے کا پروگرام طے پایا۔ عمرہ کے لئے مولانا محمد اعظم طارق شہید ؒ کی کیفیات ہی کچھ عجیب تھیں۔ مولانا اعظم طارق شہید ؒ اپنی کیفیات کا اظہار ان الفاظ میں فرماتے ہیں:
’’
بارگاہِ رسالت میں جذبات کی زبان سے عقیدت و محبت کا اظہار کرنے کے بعد آپ ﷺ کے سفر و حضر ، دنیا و قبر کے ساتھی حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمرفاروقؓ کی بارگاہ میں پہنچا تو قلب و دماغ میں ایک عجیب انقلاب بپا ہوگیا۔ کبھی خیال پیدا ہوتا کہ امیر عزیمت سے لے کر آج تک کے شہیدوں کے خون کا نذرانہ پیش کرکے اپنی عقیدت کا اظہار کروں۔ کبھی یہ خوف سوار ہوجاتا کہ کہیں روضہ کے اندر سے آواز نہ آجائے کہ باہر کُتّے ہماری مقدس قباؤں کو نوچنے اور ہمارے مقام کی طرف منہ کرکے بھونکنے میں مصروف ہیں اور تم یہاں کیا کرنے آئے ہو؟‘‘
پہلی عظیم الشان ’’انٹرنیشل حق نواز شہید ؒ کانفرنس‘‘:
۲ جون ۱۹۹۱ء کو اسلام آباد میں ایک عظیم الشان’’ انٹرنیشنل حق نواز شہید ؒ کانفرنس‘‘ منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس کی دو نشستیں منعقد ہوئیں۔ جن میں قائد جمعیت مولانا سمیع الحق، سینیٹر حافظ حسین احمد، مولانا علی اکبر ممبر قومی اسمبلی، عطا محمد قریشی ممبر قومی اسمبلی، سید امیر حسین گیلانی ، علامہ علی شیر حیدریؒ ، مولانا محمد حنیف جالندھری، مولانا بشیراحمد گولڑوی نے پہلی نشست میں شرکت کی، اس نشست میں آخری خطاب کرنے کی سعادت مولانا محمد اعظم طارق شہید ؒ نے حاصل کی۔
یہی وہ یادگار کانفرنس ہے، مولانا محمد اعظم طارق شہید ؒ کودورانِ کانفرنس جب معلوم ہواہے کہ پاکستان بھر سے آنے والے قافلوں کو مختلف جگہوں پر حکومت کی جانب سے روکا جارہا ہے ، ایسے میں آپ نے حالات کو سنبھالا، سٹیج پر آکر مائیک اپنے ہاتھ میں لیا اور شیر کی طرح گرجدار آواز میں حکومتِ وقت سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ اگر چند منٹوں کے اندر ہمارے کارکنوں کو اسلام آباد آنے کی اجازت نہ دی گئی اور ہمارے کارکنوں کی طرف سے ہمیں یہ اطلاع موصول نہ ہوئی کہ اُنہیں رہا کردیا گیا ہے، تَو ہم اسلام آباد میں امن و امان کی ذمہ داری اُٹھانے سے قاصر ہوں گے۔
ابھی پانچ منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ فون کالز کا تانتا بندھ گیا کہ اُنہیں اسلام آباد آنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
جھنگ میں مرکزی مجلس عاملہ کا اہم اجلاس
پہلی’’ انٹرنیشنل حق نواز شہید ؒ کانفرنس‘‘کی زبردست کامیابی کے بعد ۲۲جون ۱۹۹۱ء کو مسجد حق نواز شہید ؒ کی چھت پر سپاہِ صحابہؓ کی مرکزی مجلس عاملہ اور جھنگ کے ممتاز علماء کرام، خطباء عظام اور تاجرانِ شہر کا ایک نمائندہ اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں ملکی صورتِ حال کا جائزہ لیا گیا اور جھنگ کے موجودہ مخصوص حالات پر گفت و شنید ہوئی۔ ۶ مئی کو جھنگ کے ایڈیشنل جج میاں عبداللطیف کی طرف سے مولانا حق نواز جھنگوی شہیدؒ کے چار نامزد قاتلوں میں طاہر حسین اور محمد نواز کو سزائے موت اور فیض اللہ عرف کاکابلی و کاظم حسین کو عمر قید کی سزا سنائے جانے پر اطمینان کا اظاہر کیا گیا۔ تاہم اس بات پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا کہ حکومت نے اصل سازشی عناصر اور ایف۔آئی۔آر میں نامزد رافضی لیڈروں اور جھنگ کے جاگیرداروں کو نہ صرف شامل تفتیش تک نہیں کیا گیا بلکہ ان کے خلاف کسی قسم کی بھی کارروائی نہیں کی گئی۔ ان تمام امور کے بعد اہم بات یہ تھی کہ مولانا ایثارالقاسمی شہید ؒ کی شہادت سے خالی ہونے والی قومی و صوبائی اسمبلی کی سیٹوں پر کون اُمیدوار ہوں گے۔ قومی اسمبلی کی سیٹ پر نامزدگی کے لئے ہر طرف سے مولانا محمد اعظم طارق کا نام آرہا تھا۔ احباب کے سخت اصرار اور جھنگ کے مخصوص حالات کے پیشِ نظر مولانا شہید ؒ کو یہ مطالبہ ماننا پڑا اور پھر آپ کراچی چھوڑ کر جھنگ چلے آئے۔
افغانستان روانگی
مولانا محمد اعظم طارق شہید ؒ نے ۱۹۸۸ء میں افغانستان کے جہاد میں شرکت فرمائی تھی۔ ۱۹۹۰ء کے آخری دنوں میں خوست کے محاذِ جنگ پر وقت گزارنے کا موقع بھی مل چکا تھا۔ اس لئے قلبی طور پر افغانستان کے جہاد سے ایک تعلق اور رشتہ قائم ہوچکا تھا۔ 
۱۹۹۱ء میں جب خوست فتح ہوگیا تو حرکت المجاہدین کے امیر مولانا فضل الرحمن خلیل صاحب اور کمانڈر مولانا عبدالجبار صاحب کی خصوصی دعوت پر افغانستان کے تین روزہ دورے کا پروگرام تشکیل دیا گیا۔پہلے روز مولانا شہید ؒ کا بھرپور استقبال ’’یاور‘‘ کی مشہور چھاؤنی میں بڑے پُرتپاک انداز سے ہوا۔اس موقع پر سینکڑوں مجاہدین نے فضامیں’’ اللہ اکبر‘‘ کے فلک شگاف نعرے لگائے، خوشی سے فضا میں راکٹ لانچر داغے اور کلاشن کوفوں کی گولیوں سے فضا گونج اُٹھی۔ استقبال کا یہ والہانہ انداز بتارہا تھا کہ میدانِ جہاد میں غازی کی اذان اور ہے اور مسجد میں ملا کی اذان اور ہے۔ بقول علامہ محمداقبال :
الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن!
ملا کی اذاں اور ہے مجاہد کی اذاں اور
امارتِ اسلامیہ افغانستان سے واپسی
۱۱ جولائی کو جب یہ قافلہ بنوں پہنچا تو روزنامہ جنگ لاہور کے پہلے صفحہ پر یہ سرخی قائدین سپاہِ صحابہؓ کا استقبال کر رہی تھی۔’’حکومت پنجاب نے محرم سے قبل مولانا ضیاء الرحمن فاروقی اور مولانا اعظم طارق سمیت سپاہِ صحابہؓ کے مرکزی رہنماؤں کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کرلیا، گرفتاریاں آئندہ چوبیس گھنٹوں میں شروع ہوسکتی ہیں۔‘‘
قائدینِ سپاہِ صحابہؓ کا فیصلہ یہی تھا، خواہ کچھ بھی ہوجائے، ہمیں واپس جھنگ پہنچنا ہے۔ چونکہ ۱۱ جولائی کو ہی مولانا محمد اعظم طارق نے چنیوٹ میں’’ شہداء مدینہ کانفرنس‘‘اور مولانا ضیاء الرحمن فاروقی نے چک جھمرہ میں ’’شانِ علی المرتضیٰؓ کانفرنس‘‘ سے خطاب کرنا تھا۔ طے پایا کہ ڈیرہ اسماعیل خان سے آگے کا سفر احتیاط کے ساتھ بس کے ذریعہ کیا جائے تاکہ جھنگ پہنچنے میں رکاوٹ نہ ہو۔ مولانا ضیاء الرحمن فاروقی نے مولانا محمد اعظم طارقؒ سے فرمایا۔’’آج میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے، آپ چک جھمرہ کا جلسہ نمٹائیں اور پھر چنیوٹ چلے جائیں۔‘‘
مولانا اعظم طارق کی گرفتاری
مولانا محمد اعظم طارق چنیوٹ کی طرف روانہ ہوئے۔ چنیوٹ شہر سے باہر دو کلومیٹر پہلے پولیس نے راستہ کی ناکہ بندی کر رکھی تھی۔ موقع پر مجسٹریٹ ٹوانہ موجود تھے۔ انہوں نے مولانا شہید ؒ کو روکا اور کہا۔’’آپ کے ضلع جھنگ میں داخلہ پر پابندی ہے۔‘‘ انہوں نے مولانا کومع ساتھیوں کے اپنی تحویل میں لے کر تشدد کا نشانہ بنایا۔ پھر حوالات میں لاکر قید کردیا۔ تیسرے روز شام کے وقت جھنگ جیل منتقل کردیا گیا۔ آپ نے یہاں ابھی دو دِن ہی گزارے تھے کہ ایک ملازم نے آکر اطلاع دی کہ آپ کو ڈیوڑھی میں طلب کیا گیا ہے۔ آپ جیسے ہی باہر آئے، آپ کو پولیس گاڑی میں بٹھاکر فیصل آباد کی جانب لے گئے۔ یہاں فیصل آباد جیل کے نیو سیل میں لاکر خطرناک قیدیوں، ڈاکوؤں اور قاتلوں کے پاس بند کردیا گیا۔ ایک ماہ کی اسیری کے بعد ۱۲ اگست کو آپ رہا ہوئے۔
کراچی واپسی اور جھنگ میں اقبال حسین کی شہادت
مولانا محمد اعظم طارق شہید ؒ کے بیوی بچے ابھی کراچی ہی میں رہائش پذیر تھے۔ آپ فیصل آباد جیل سے رہائی کے بعد اسی شام بذریعہ ہوائی جہاز کراچی روانہ ہوگئے۔ کراچی میں ابھی ایک ہی دِن گزرا تھا کہ اگلی رات نو بجے مولانا شہید ؒ کو اطلاع ملی کہ جھنگ کے ممتاز سماجی، سیاسی اور تاجر رہنما میاں اقبال حسین جو کہ ۱۰ جنوری کے ضمنی الیکشن میں سپاہِ صحابہؓ اور انجمن تاجران کے مشترکہ اُمیدوار تھے، جھنگ میں ٹوبہ روڈ پر افسر کالونی کے گیٹ پر شہیدکردیئے گئے ہیں۔ میاں اقبال حسین شہید ؒ کی شخصیت شرافت، غریب پروری، دینی مدارس کی سرپرستی اور سپاہِ صحابہؓ کے اسیران کے لئے تعاون اور بھلائی کے کاموں میں ہمیشہ پیش قدمی کے لحاظ سے ایک انفرادی شان کی حامل تھی۔ میاں اقبال حسین شہید ؒ کی جدائی ایک بہت بڑا صدمہ تھا، جس سے نہ صرف اہل جھنگ بلکہ خود مولانا محمد اعظم طارق شہید ؒ بھی بہت افسردہ ہوئے۔
’’دفاعِ صحابہؓ و پاکستان کانفرنس‘‘ پر بم حملے
۲۶ دسمبر ۱۹۹۱ء کو لاہور میں ’’دفاع صحابہؓ و دفاع پاکستان کانفرنس‘‘ جاری تھی، رات کے بارہ بج رہے تھے کہ اچانک کانفرنس پر بم حملوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ لائٹ چلی جانے کی وجہ سے اضطراب کی سی کیفیت تھی۔ زخمیوں کی چیخ و پکار، شہیدوں کے جسم کے بکھرے ہوئے اجزاء ماحول کو سوگوار بنارہے تھے۔ ٹیوب لائٹس کرچیوں میں تبدیل ہوچکی تھیں۔ قناتیں جل چکی تھیں۔ اس موقع پر مولانا محمد اعظم طارق ایک منجھے ہوئے قائد کی طرح حالات کو سنبھالنے کے لئے فوراً سٹیج پر پہنچے، مائیکروفون ہاتھ میں لیا اور یوں گویا ہوئے:
’’
سپاہِ صحابہؓ کے ساتھیو، کارکنو اور سپاہیو! آپ کا بھائی محمد اعظم طارقؒ آپ سے مخاطب ہے۔ آپ جہاں جہاں ہیں، فوراً واپس لوٹ آئیں۔ ہم دوبارہ جلسے کا آغاز کرنے والے ہیں۔ تاکہ دشمن کو معلوم ہوجائے کہ اصحابِؓ رسول ﷺ کے سپاہی آج بھی میدانِ اُحد کا نقشہ پیش کرسکتے ہیں۔ کوئی ساتھی خوف زَدہ نہ ہو۔‘‘
اس وقت مولانا شہید ؒ کی آواز میں نہ جانے کیا تاثیر پیدا ہوگئی تھی کہ آپ کی آواز جس کان میں پہنچی، وہ فوراً بھاگتا ہوا جلسہ گاہ میں پہنچ گیا۔ اور یوں جلسہ دوبارہ شروع ہوگیا۔ شہداء کی نعشوں اور زخمی افراد کو چند ذمہ دار احباب کے ذریعے مختلف ہسپتالوں میں پہنچادیا گیا۔ اگلے دن لاہور میں دوپہر کے وقت چار کارکنوں کے جنازے ایک ساتھ مال روڈ پر رکھے گئے تو ہر آنکھ اشکوں سے تَر تھی۔
والد ماجد کا انتقال
۹ دسمبر صبح کے وقت جرنیلِ سپاہِ صحابہؓ مولانا محمد اعظم طارقؒ کو اطلاع ملی کہ آپ کے والدِ محترم کا انتقال ہوگیا ہے۔ یہ ایک اور صدمہ تھا، جس نے آپ کو مزید افسردہ کردیا۔ آپ اپنے والد کی تجہیز و تکفین کے بعد جھنگ روانہ ہوئے۔ یہاں احباب کی بلدیاتی الیکشن مہم میں شریک ہونے کو ایک مشن سمجھ کر سرانجام دینے لگے۔
قومی و صوبائی اسمبلی کا الیکشن
۶ فروری ۱۹۹۲ء کے دن قومی و صوبائی اسمبلی کیلئے کاغذات نامزدگی داخل کرانے کے لئے جھنگ کے معززین،عوام اور کارکنوں کی بڑی تعداد مسجد حق نواز شہیدؒ میں جمع ہوچکی تھی۔ دِن گیارہ بجے مسجد سے جلوس روانہ ہوا اورپیدل ایڈیشنل جج کی عدالت میں پہنچا، جو ان انتخابات کے ریٹرننگ آفیسر مقرر ہوئے تھے۔
حکومتی اُمیدوار شیخ محمد یوسف اور حاجی انتظار حسین نے مسلم لیگ کا ٹکٹ ملنے کے بعد بڑی تیزی سے الیکشن کمپین کا آغاز کردیا۔ لاہور سے آٹھ وزراء نے جھنگ میں صوبائی وزیر اختر بھروانہ کی کوٹھی اور ریسٹ ہاؤسز میں ڈیرے ڈال کر الیکشن مہم کو اس طرح شروع کیا کہ بیک وقت چار چار پانچ پانچ پجارو اور لینڈ کروزر گاڑیاں ہر سڑک پر نکل پڑتی تھیں۔ انہی دنوں وزیر اعلیٰ پنجاب غلام حیدر وائیں ۲۰ فروری کو جھنگ میں حکومتی انتخابی جلسہ سے خطاب کے لئے چلے آئے۔
جب وزیراعلیٰ ہیلی کاپٹر سے اُترے تو انتظامیہ کے افسران و صوبائی وزراء یہ دیکھ کر دَنگ رہ گئے کہ مائی ہیر کی کچی کالونی کے مکانوں پر سپاہِ صحابہؓ کے پرچم لہرارہے تھے۔ وائیں نے یہ منظر دیکھ کر کہا کہ تم کہتے تھے کہ جھنگ میں ہمارا بڑا زور ہے مگر سارے گھروں پر جھنڈے تو سپاہِ صحابہؓ کے لہرارہے ہیں۔ اس پر خوشامدی ٹولے کے تمام افراد نے کہا کہ جناب!یہ صرف کچی کالونی کے چند لوگ سپاہِ صحابہؓ کے ساتھ ہیں۔ پورا شہر تو ہمارے ساتھ ہوچکا ہے۔ لیکن وزیراعلیٰ کی یہ غلط فہمی اور وزراء کی خوش فہمی جلسہ میں خطاب کے دوران اُس وقت دُور ہوگئی جب جلسہ میں شریک افراد نے ’’تیری آواز میری آواز حق نواز حق نواز۔ سنیوں کا وزیر اعظم ،طارق اعظم طارق اعظم‘‘ کے نعرے لگانے شروع کردیئے۔
دھاندلی کا حکومتی منصوبہ
حکومت نے الیکشن میں دھاندلی کا منصوبہ بنایا، جس کی خبر قائدینِ سپاہِ صحابہؓ تک بھی پہنچ گئی۔ اس سازش کا پتہ اُس وقت چلا جب سازش میں شریک ایک شخص نے اس ’’سودے‘‘ میں پورا حصہ نہ ملنے پر قائدینِ سپاہِ صحابہؓ کو آگاہ کردیا۔ علامہ ضیاء الرحمن فاروقی شہید ؒ نے بلدیہ گراؤنڈ جھنگ میں منعقد ہونے والے ایک بڑے جلسہ عام میں اعلان کردیا۔’’ پانچ لاکھ لے کر دھاندلی کرنے والے سن لیں۔ہم تمہاری اس سازش کے نتیجے میں اگر نقصان سے دو چار ہوئے تو پھر تمہارے جنازے پڑھنے والا کوئی نہ ہوگا۔‘‘ اس تقریر کی گونج آناً فاناً سازشی افراد تک جا پہنچی۔ سازشیوں نے راتوں رات بیعانہ واپس کرکے قائدین کو پیغام بھجوادیا کہ ہمیں معاف کردیا جائے۔
الیکشن میں کامیابی
۴مارچ کی صبح ہی سے مولانا محمد اعظم طارق کو جماعتی احباب نے پابند کردیا تھا کہ آپ اَب آرام فرمائیں۔ قائد سپاہِ صحابہؓ علامہ ضیاء الرحمن فاروقی شہید ؒ نے خود جھنگ سٹی کے دفتر میں ڈیرے ڈال دیئے۔ جھنگ کے عوام صبح ہی سے ووٹ ڈالنے کے لئے پولنگ اسٹیشنوں کا رُخ کرنے لگے۔ ووٹنگ شروع ہونے سے قبل ہی پولنگ بوتھوں پر بڑی بڑی لائنیں لگ گئی تھیں اور نہایت ہی جوش و خروش سے فوج کی زیرِ نگرانی ووٹ کاسٹ کرنے کا عمل شروع ہوگیا تھا۔رات دس بجے تک اکثر علاقوں سے نتائج آچکے تھے، جس کے مطابق قومی اسمبلی کی سیٹ سات ہزار سے زائد اور صوبائی اسمبلی کی سیٹ پندرہ ہزار سے زائد ووٹوں سے جرنیل سپاہِ صحابہؓ مولانا محمد اعظم طارق جیت چکے تھے۔
دورۂ متحدہ عرب امارات
کچھ عرصہ بعد مولانا محمد اعظم طارق متحدہ عرب امارات روانہ ہوگئے۔ ۱۵ اپریل ۱۹۹۲ء کو دوبئی ایئرپورٹ پر جب آپ پہنچے تو کثیر تعداد میں علماء کرام، زعماء ملت اور سپاہِ صحابہؓ کے کارکنوں نے والہانہ استقبال کیا۔ ۲۲ اپریل کو آخری پروگرام میں تربیتی نشست کے عنوان پرجامع مسجد الرفاعہ میں خطاب ہوا۔ ۲۳ اپریل کو دن کے گیارہ بجے دوبئی ایئرپورٹ پر الوداع کہنے کے لئے سپاہِ صحابہؓ متحدہ عرب امارات کے عہدیدار حضرات اور کارکن اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود کثیر تعداد میں موجود تھے۔
قومی اسمبلی کا اجلاس اور مولانا شہید ؒ کا حلف
۳ مئی کو قومی اسمبلی میں بطور رکن اسمبلی حلف اُٹھانے کے لئے اجلاس میں شریک ہوئے۔ سپیکر کے ساتھ ساتھ مولانا شہید ؒ نے حلف کی عبارت دہراتے گئے۔ سپیکر قومی اسمبلی نے جب کہا۔’’اور میں پاکستان کے آئین و قانون کا پابند رہوں گا۔‘‘ تَو مولانا محمد اعظم طارق شہید ؒ نے فرمایا۔’’اور میں پاکستان کے اس آئین و قانون کا پابند رہوں گا، جو قرآن و سنت کے مطابق ہوگا۔‘‘ ان اضافی کلمات کے سنتے ہی قومی اسمبلی میں ایک دم سناٹا چھاگیا۔ تاہم مولانا محمد اعظم طارق شہید ؒ کے حلف کو صحیح تسلیم کرلیا گیا۔
قومی اسمبلی میں مولانا محمد اعظم طارق شہید ؒ کی پہلی تقریر
مولانا محمد اعظم طارق شہید ؒ نے قومی اسمبلی میں جو پہلی تقریر کی، وہ اس قدر پُرجوش اور مؤثر تھی کہ ایک ایک جملہ پر ارکانِ اسمبلی ڈیسک بجارہے تھے اور حکومتی وزراء انگشت بدنداں تھے کہ اس شخص نے پہلے روز ہی اسمبلی میں تہلکہ مچادیا ہے۔ مولانا محمد اعظم طارق شہید ؒ نے اپنی پہلی تقریر میں فرمایا:
’’جنابِ اسپیکر! میں جس سیٹ سے کامیاب ہوکر آیا ہوں، ایوان جانتا ہے اور آپ بھی جانتے ہیں کہ یہ مولانا ایثارالقاسمی شہید ؒ کی شہادت سے سیٹ خالی ہوئی تھی۔ وہ ۱۰ جنوری ۱۹۹۱ء کو شہید ؒ ہوگئے تھے۔ لیکن مجھے یہ بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ مولانا کی شہادت کے بعد سوا سال تک بلاوجہ اس سیٹ پر الیکشن نہیں کرائے گئے اور جان بوجھ کر عوام کو نمائندگی سے محروم رکھا گیا۔ مولانا ایثارالقاسمی اُس وقت ایم این اے بھی تھے اور ایم پی اے بھی تھے۔ جھنگ کی عوام سوا سال تک اپنے دونوں نمائندوں سے محروم رہی۔ اور بجائے اس کے کہ اس کو نمائندگی دی جاتی۔ اس کے بجائے لاشوں کے تحفے دیئے گئے۔ سربازار علماء کو شہید ؒ کیا گیا۔ ایک سال کے عرصے میں ہمارے ۵۰ سے زائد کارکن شہید ؒ کئے گئے۔ میں سب سے پہلے یہ پوچھنا چاہوں گا کہ آخر کیا وجہ تھی کہ سوا سال تک حکومت وہاں الیکشن نہیں کراسکی اور اگر حالات کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو سوال یہ ہے کہ جو حکومت سوا سال تک ایک شہر کے حالات کنٹرول نہیں کرسکتی تو اسے کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ کہے کہ ہم اس ملک میں حکومت کرتے ہیں۔‘‘
قومی اسمبلی میں مشن سپاہِ صحابہؓ کی پہلی مؤثر آواز
۱۲ مئی کو قومی اسمبلی میں مولانا محمد اعظم طارق شہید ؒ کی اس پہلی تقریر، جس میں صحابہ کرامؓ کے گستاخوں کی حقیقت عیاں کی گئی اور حکومت کی اسلام نافذ کرنے کے وعدوں سے انحراف پر کھل کر اظہارِ خیال کیا گیا، مولانا شہید ؒ کی جرأت و ہمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
تقریر کا کچھ حصہ قارئین کی خدمت میں حاضر ہے
’’جناب اسپیکر! یہ آج مجھے صبح لیٹر ملا ہے، بھکر میں F.I.R کاٹی گئی ہے کہ اس مہینے کی ۹ تاریخ کو بھکر کے ایک ماسٹر نے سکول کی تعلیم دیتے ہوئے پیغمبر اسلام ﷺ پر توہین آمیز جملے کستے ہوئے کہا ہے کہ’’اللہ کے رسولؐ اپنی بیویوں کے پاس اس طرح جاتے تھے جس طرح کوئی مینڈھا بکریوں کے پاس جاتا ہے۔‘‘ (معاذاللہ) اور اس کے ساتھ ساتھ اس نے سیدہ عائشہ صدیقہؓ اور اصحابِؓ رسول ﷺ پر توہین آمیز جملے کسے ہیں۔ جناب! یہ ایک ایف آئی آر کی بات نہیں ہے۔ اس ملک میں اس وقت ۳۵۰ کتابیں موجود ہیں، جو لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوکر آج مارکیٹوں میں منظر عام پر آئی ہوئی ہیں اور ہم نے بار بار حکومت کو اس کی طرف متوجہ کیا ہے۔ ہمیں کہا جاتا ہے کہ تم دہشت گرد ہو، تم تخریب کار ہو۔ اگر ولی خاں والے حضرات غفار خاں کے خلاف کوئی بات نہیں سنتے، انہیں کوئی دہشت گرد نہیں کہتا اور کوئی شخص اپنے کسی محسن کے خلاف کوئی بات نہیں سنتا۔ اسے کوئی دہشت گرد نہیں کہتا۔ اور اگر ہم کہیں کہ پیغمبر ﷺ کے صحابہ کرامؓ کے ناموس کا تحفظ ہونا چاہئے۔ ان کے خلاف گالی گلوچ کا دروازہ بند ہونا چاہئے تو اسے دہشت گردی کہا جاتا ہے تو میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں سب سے بڑا دہشت گرد ہوں۔ جنابِ محترم! آج اس ملک میں پیغمبرﷺ کے صحابہؓ کیلئے کوئی قانون نہیں ہے۔ جو کُتّا چاہے بھونکتا چلا جائے، بڑے بڑے غیر ملکی لیڈر، اسلام کے نام پر (اسپیکر: یہ کتا غیر پارلیمانی لفظ ہے) اگر کوئی صحابہؓ کے خلاف بھونکتا ہے تو وہ کتے سے بھی بدتر ہے۔‘‘ مولانا محمد اعظم طارق شہید ؒ کی حقائق پر مبنی اس تقریر نے قومی اسمبلی میں ہلچل پیدا کردی تھی۔
حج کیلئے پہلا سفر
الیکشن میں آپکی شاندار کامیابی، انٹرنیشنل حق نوازشہید ؒ کانفرنس کے بخیر و خوبی انعقاد اور جھنگ کی صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر حاجی عابد حسین کے بلا مقابلہ منتخب ہونے کے بعد قائد سپاہِ صحابہؓ علامہ ضیاء الرحمن فاروقی شہید ؒ ، چےئرمین سپریم کونسل سپاہِ صحابہؓ مولانا محمد ضیاء القاسمی ؒ کے ہمراہ مولانا محمد اعظم طارق شہید ؒ نے پروگرام ترتیب دیا کہ بارگاہِ ایزدی میں سجدہ شکر بجالانے کے لئے ہمیں حج کے مبارک سفر کی تیاری کرنی چاہئے۔ چنانچہ حج کے لئے جانے والے وفد میں مولانا محمد حنیف جالندھری، مفتی عبدالقوی ملتانی بھی شامل ہوگئے تھے۔ سعودی عرب میں مولانا سمیع الحق، مولانا عبدالقادر آزاد خطیب بادشاہی مسجد لاہور اور ان کے دیگر علماء ساتھی پہلے ہی وزارتِ خارجہ کے مہمان بن کر قائدین سپاہِ صحابہؓ کے مہمان بن گئے۔ قیام کے دوران مولانا ابوالحسن علی ندویؒ ، مولانا اسعد مدنی اور ہندوستان کے کئی اکابر علماء کرام سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان میں سے اکثر حضرات سپاہِ صحابہؓ کی جدوجہد سے واقف اور مشن سے آگاہ تھے۔ ان حضرات نے مولانا محمد اعظم طارق کو دیکھ کر حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔’’آپ کی کیسٹیں سن کر ہم سمجھتے تھے کہ آپ بہت بلند قامت اور عمر رسیدہ قسم کے ہوں گے۔ لیکن آپ تو بالکل جوان ہیں۔‘‘بہرحال اس سفر کے دوران دیگر ممالک کے علماء کرام سے ملاقاتیں ہوئیں اور اُنہیں سپاہِ صحابہؓ کے مشن سے آگاہی ہوئی۔
’’پیغمبر انقلابؐ کانفرنس، فیصل آباد‘‘ سے خطاب:
سپاہِ صحابہؓ فیصل آباد کے زیر اہتمام ۱۷ ستمبر کو دھوبی گھاٹ کے وسیع پارک میں ’’پیغمبر انقلابؐ کانفرنس‘‘ منعقد ہوئی۔ پورے شہر بلکہ ڈویژن بھر میں اس کانفرنس کی خوب تیاریاں کی گئی تھیں۔ دھوبی گھاٹ میں اس کانفرنس کا انعقاد اس لحاظ سے چیلنج تھا کہ ایک تو روافض کا مرکزی امام باڑہ اس پارک کے بالمقابل ہے، دوسرا یہ کہ اتنے بڑے تاریخی پارک میں کانفرنس کو کامیاب بنانے کے لئے کم از کم پچاس ہزار افراد کی ضرورت تھی، ورنہ یہ کانفرنس ناکام قرار پاتی۔ نمازِ عشاء کے بعد کانفرنس کا آغاز تلاوتِ کلام پاک سے ہوا۔ مولانا محمد اعظم طارق جب رات کو کانفرنس سے خطاب کے لئے پہنچے تو پارک میں تِل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ ہر سُوانسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر موجزن تھا۔ سٹیج پر سکیورٹی کے انتظامات زبردست تھے۔
قریبی امام باڑہ میں روافض نے مورچہ لگالیا تھا اور لاؤڈ سپیکر سے بار بار اعلان کیا جارہا تھا کہ آج اس کانفرنس میں اگر ہمارے خلاف کوئی تقریر ہوئی تو ہم گولی چلانے سے گریز نہیں کریں گے۔ دوسری طرف پولیس اور انتظامیہ کا یہ حال تھا کہ اُن کی جانبداری کر رہی تھی۔ نہ تو اُن کا لاؤڈ سپیکر بند کروایا جارہا تھا اور نہ ہی وہاں سے مسلح افراد کو ہٹایا جارہا تھا۔
مولانا محمد اعظم طارق نے صورت حال کا جائزہ لیا اور اپنے ساتھیوں سے فرمایا۔’’آپ لوگ اپنے انتظامات بھی رکھیں، پھر جو بھی ہوا، دیکھ لیں گے۔‘‘
اسی دوران اسٹیج سیکرٹری نے مولانا محمد اعظم طارق کی تقریر کا اعلان کردیا اور لوگوں نے کھڑے ہوکر پُرجوش نعروں سے آپ کا بھرپور استقبال کیا۔
مولانا محمد اعظم طارق نے اپنی تقریر کے آغاز میں انقلابِ مصطفوی کا تعارف کرایا اور واضح کیا۔’’ اسلامی انقلاب فتح مکہ کی طرح پُرامن ہوتا ہے۔ ایرانی انقلاب کی طرح خونی نہیں ہوتا۔ ایرانی انقلاب خونی اس لئے بنا کہ اس کا انقلابی رہنما ایک متعصب شخص تھا، جس نے عوام اہل سنت کے ساتھ زیادتیاں اپنا ’مذہبی‘ فریضہ جان کی کرنا ہی تھیں، خود صحابہ کرامؓ کو بھی معاف نہیں کیا۔‘‘قائد محترم مولانا محمد اعظم طارق نے خمینی کی طرف سے حضرت عمر فاروقؓ کو (معاذاللہ) کافر و زندیق قرار دینے کا حوالہ پیش کیا۔ اس حوالے کا پیش کرنا تھا کہ عوام نے خمینی پر لعنت شروع کردی۔ عوامی نعروں کی آواز بلند ہوتے ہی قریبی امام باڑہ سے اچانک گولیوں کی تڑتڑاہٹ نے فضا کا سینہ چھلنی کردیا اور کلاشن کوفوں کے دھانے کھل گئے۔ ایک میدانِ جنگ کا سماں پیدا ہوگیا۔ فائرنگ کا سلسلہ اس قدر شدید تھا کہ پوری کانفرنس میں ہلچل پیدا ہوگئی اور لوگ اُٹھ کر کھڑے ہوگئے۔
مولانا محمد اعظم طارق نے اس موقع پر مجمع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔’’آج آپ لوگوں نے یہ ثابت کرنا ہے کہ آپ اصحابِؓ رسول ﷺ کے پیروکار اور سپاہی ہیں۔ آپ بیٹھ جائیں۔ ہم آج دشمن کو بتادیں گے کہ برستی گولیوں میں بھی حق کہنے اور سننے والے موجود ہیں۔‘‘
مولانا محمد اعظم طارق کا یہ کہنا تھا کہ تمام مجمع اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔ آپ نے اپنی تقریر کا سلسلہ جاری رکھا۔ یہ منظر دیکھ کر دشمن نے سیدھی فائرنگ شروع کردی۔ سٹیج کے عقب میں موجود درختوں کے پتے اور شاخیں گولیوں سے چٹخنے لگے۔ آپ کے محافظوں نے آپ کے گرد ایک حلقہ بنالیا۔ آپ نے انہیں دھکا دے کر ہٹاتے ہوئے کہا۔’’آپ لوگ ایک طرف ہٹ جائیں۔‘‘ بلکہ دورانِ تقریر ہی ایک دو گن مینوں کو جو مولانا کے بہت ہی قریب آچکے تھے، تھپڑ بھی رسید کردیئے کہ پیچھے کیوں نہیں ہٹ رہے ہو۔ مولانا شہید ؒ کی تقریر موسلا دھار بارش کی طرح جاری تھی اوردشمن کی فائرنگ بھی کسی میدانِ جنگ کا منظر پیش کررہی تھی۔
جب دیکھا کہ روافض کی جارحیت کا سلسلہ رُکنے کے بجائے بڑھتا ہی چلا جارہا ہے اور پولیس اپنی ڈیوٹی چھوڑ کر راہِ فرار اختیار کرچکی ہے ، پھر اِدھر سے جوابی کارروائی کا آغاز ہوا اور گنوں کے دھانوں نے آگ اُگلنا شروع کردی۔ پھر کیا تھا، بس چند منٹوں کے بعد ہی دوسری طرف خاموشی چھاگئی۔
جرنیل سپاہِ صحابہؓ مولانا محمد اعظم طارق کے خطاب کے بعد قائد سپاہِ صحابہؓ علامہ ضیاء الرحمن فاروقی نے ولولہ انگیز تقریر کا آغاز کیا۔ تقریر کے آغاز میں مخالف سمت سے فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا۔ جب قائد محترم نے للکارتے ہوئے فرمایا۔’’رافضیو! اگر اب تمہاری طرف سے فائرنگ ہوئی تو پھر میں اپنے مسلح ساتھیوں کو اجازت دوں گا کہ وہ تمہارا بندوبست کریں۔‘‘ یہ کہنا تھا کہ فائرنگ کا سلسلہ رُک گیا اور روافض بھاگ گئے۔ کیونکہ ایک ساتھی کی فائرنگ سے امام باڑہ کو بجلی فراہم کرنے والا ٹرانسفارمر جل گیا تھا، جس سے امام باڑے میں تاریکی چھاگئی تھی۔ اندھیرے کی پیداوار، تاریکی کا سہارا لے کر راہِ فرار اختیار کرچکی تھی۔
کاروانِ ناموسِ صحابہؓ، بہاولپور سے اسلام آباد
تحفظ ناموسِ صحابہؓ کی اہمیت و ضرورت سے عوام کو آگاہ کرنے اور قومی اسمبلی سے ’’تحفظ ناموسِ صحابہؓو اہل بیتؓ بل‘‘ پاس کروانے کے لئے ’’کاروانِ ناموسِ صحابہؓ ‘‘ کا پروگرام ترتیب دیا گیا۔چنانچہ ۵ فروری بعد نمازِ عشاء جامع مسجد الصادق، بہاول پور کے عظیم الشان جلسے سے فراغت کے بعد مولانا محمد اعظم طارق کی قیادت میں کاروانِ ناموسِ صحابہؓ اسلام آباد کے لئے روانہ ہوا۔ یہ کارواں ۶ فروری کی صبح لودھراں، جلہ ارائیں، بستی ملوک کے راستے دوپہر دو بجے ملتان پہنچا۔ بعد ازاں یہ کارواں ملتان سے قادر پور راں، کبیروالہ، خانیوال کے راستے میاں چنوں پہنچا۔ اگلی صبح یعنی ۷ فروری کو یہ کارواں میاں چنوں سے اپنی منزل کی جانب بڑھنے لگا۔ چیچہ وطنی میں کاروانِ ناموسِ صحابہؓ کا انتہائی شاندار انداز میں استقبال کیا گیا۔ یہ کارواں ہڑپہ، ساہیوال، یوسف والاسے ہوتا ہوا اوکاڑہ پہنچا۔ راستے میں جگہ جگہ کارواں پہ پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں۔راستے میں عقیدت و محبت کے عجیب مناظر دیکھنے میں آئے۔ اوکاڑہ پہنچنے پر دو میل تک سپاہِ صحابہؓ کے سینکڑوں مقامی کارکن قائدین کی گاڑیوں کے ساتھ ساتھ دوڑتے رہے ، پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے رہے اور فضا نعروں سے گونجتی رہی۔ اوکاڑہ میں کارواں میں شامل تمام افراد کو دوپہر کا کھانا پیش کیا گیا۔ بعد ازاں یہ عظیم کارواں جھنگ کے لئے براستہ سمندری روانہ ہوا۔
۸ فروری صبح دس بجے یہ کاروانِ ناموسِ صحابہؓ جب ایئرپورٹ چوک فیصل آباد پہنچا تو سپاہِ صحابہؓ فیصل آباد نے شاندار استقبال کیا۔ بعد ازاں یہ کارواں فیصل آباد سے سرگودھا کے لئے رواں دواں تھا کہ راستے میں کمال پور کے قریب روافض نے ایک منظم سازش کے ذریعے کاروانِ ناموسِ صحابہؓ پر فائرنگ کردی، جس کے نتیجے میں سپاہِ صحابہؓ وہاڑی کے ایک کارکن جاوید اقبال شدید زخمی ہوگئے۔ 
فیصل آباد سے یہ کارواں براستہ چنیوٹ، چناب نگر (ربوہ) سے ہوتا ہوا سرگودھا پہنچا۔
۹ فروری کی صبح یہ کاروانِ ناموسِ صحابہؓ پنڈی بھٹیاں، سلیکھی کی منڈی، خانقاہ ڈوگراں، فاروق آباد، شیخوپورہ پہنچا۔ شیخوپورہ سے کوٹ عبدالمالک کے راستے یہ کارواں لاہور روانہ ہوا۔ رات کا قیام جامعۃ المنظورالاسلامیہ صدر میں طے تھا۔ اگلی صبح ۱۰ فروری کو یہ کارواں لاہور سے گوجرانوالہ کے لئے روانہ ہوا۔ مقامی پولیس نے راوی پل پر کارواں کی جامہ تلاشی شروع کردی۔ لیکن کسی قسم کا ناجائز اسلحہ برآمد نہ ہوسکا۔ پولیس نے روایتی انداز اپنایا اور مولانا محمد اعظم طارق کے پانچ گن مینوں کو لائسنسی اسلحہ سمیت اپنی حراست میں لے لیا۔ مولانا محمد اعظم طارق نے اپنے گن مینوں کی رہائی تک کارواں کے پل پر ہی رُکنے کا اعلان کردیا۔جس سے ٹریفک کا زبردست مسئلہ پیدا ہوگیا۔ تب پولیس کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور مولانا شہید ؒ کے گن مینوں کو رہا کرنے پر راضی ہوگئی۔ بعد ازاں یہ کارواں مرید کے، کامونکی، موڑ ایمن آباد کے راستے گوجرانوالہ پہنچا۔
کاروانِ ناموس صحابہؓ کے پل پر پہنچنے سے قبل ہی پولیس نے پھر وہی پرانے ہتھکنڈے استعمال کئے۔ دریائے چناب کے پُل پر کارواں کے استقبال کے لئے موجود نوجوانوں، بچوں، بوڑھوں پر پولیس نے اندھا دھند لاٹھی چارج شروع کردی۔
جب مولانا محمد اعظم طارق کی گاڑی پل پر پہنچی تو پولیس نے پہلے مولانا محمد اعظم طارق کی گاڑی کو روکا، پھر آگے جانے کا اشارہ کردیا۔ جیسے ہی مولانا شہید ؒ کی گاڑی آگے بڑھی، پولیس نے پیچھے آنے والی گاڑیاں روک کر تلاشی شروع کردی۔ اور اس تلاشی کی آڑ میں کارکنوں کی گرفتاری کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ مولانا محمد نواز بلوچ، شاعر انقلاب شہادت علی طاہر جھنگوی سمیت ۲۰۰ سے زائد سپاہِ صحابہؓ کے کارکنوں کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔ پولیس گردی کے باوجود سپاہِ صحابہؓ کے بقیہ کارکنوں نے اپنا سفر جاری رکھا اور کھاریاں پہنچ گئے۔ کھاریاں پولیس بھی کسی سے کم نہ تھی۔ یہاں طاقت کا اندھا استعمال ہوا اور ہزاروں کارکن زخمی ہوگئے۔یہاں پولیس نے ۳۰۰ سے زائد کارکن گرفتار کرلئے۔
اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے مولانا محمد اعظم طارق ؒ نے اپنے آپ کو گرفتاری کے لئے پیش کردیا۔ مگر پولیس افسران کا کہنا تھا۔’’ہمیں کاروانِ ناموسِ صحابہؓ کوسبوتاژ کرنے کا حکم ہے، آپ کو گرفتار کرنے کا نہیں۔‘‘ سپاہِ صحابہؓ کے اراکین بڑھ چڑھ کر اپنی گرفتاریاں پیش کر رہے تھے۔ پولیس حکام پریشان تھے کہ ہم اتنے آدمی کہاں لے کر جائیں گے۔
۱۰ فروری کی رات یہ کارواں جہلم پہنچا۔ یہاں کاروانِ ناموسِ صحابہؓ کا پُرجوش استقبال کیا گیا اور عظیم الشان ’’ناموسِ صحابہؓ کانفرنس‘‘ منعقد ہوئی۔ بعد ازاں یہ کارواں اپنی منزل کی جانب بڑھتا رہا۔ راستے کی رکاوٹوں اور پولیس گردی کے واقعات کے باوجود یہ کارواں راولپنڈی پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ ۱۲ فروری کوکاروانِ ناموسِ صحابہؓ راولپنڈی سے اسلام آباد کے لئے روانہ ہوا۔ کوہاٹی بازار سے فیض آباد چوک تک مقامی پولیس کی ایک درجن سے زائد گاڑیاں استقبالی جلوس کے ساتھ رہیں۔ راولپنڈی کی تاریخ کا یہ بہت بڑا جلوس تھا۔ فیض آباد چوک پر سپاہِ صحابہؓ اسلام آباد کے راہنماؤں نے کاروانِ ناموسِ صحابہؓکا استقبال کیا اور ایک بڑے تاریخی جلوس کی صورت میں اسلام آباد کی لال مسجد پہنچے۔ لال مسجد پہنچ کر ۵ فروری سے شروع ہونے والا یہ ’’کاروانِ ناموسِ صحابہؓ ‘‘ جرنیل سپاہِ صحابہؓ کے آخری خطاب پر اختتام پذیر ہوا۔
ناموسِ صحابہؓ و اہل بیتؓ بل کی منظوری
جولائی ۱۹۹۳ء کے پہلے عشرہ میں پرائیویٹ ڈے کے موقع پر ’’ناموسِ صحابہؓ و اہل بیتؓ بل‘‘ ایجنڈے کے شروع میں آگیا۔ چنانچہ اسمبلی کی کارروائی ضابطہ کے مطابق جب ایجنڈا کی اس شق تک پہنچی تو سپیکر قومی اسمبلی گوہر ایوب نے بل اسمبلی میں پیش کرنے کے لئے کہا۔ مولانا محمد اعظم طارق نے اپنی نشست پر کھڑے ہوکر بل کی عبارت پڑھی، جو حسبِ ذیل ہے:
ناموسِ صحابہؓ و اہل بیتؓ ترمیمی بل
مجموعہ تعزیرات پاکستان اور مجموعہ ضابطہ فوجداری ۱۸۹۸ء میں مزید ترمیم کرنے کا بل۔
چونکہ یہ قرین مصلحت ہے کہ بعد ازیں ظاہر ہونے والی اغراض کے لئے مجموعہ تعزیرات پاکستان (ایکٹ نمبر ۴۵ بابت ۱۸۶۰ء) اور مجموعہ ضابطہ فوجداری (ایکٹ نمبر ۵ بابت ۱۸۹۸ء) میں مزید ترمیم کی جائے۔
لہٰذا حسبِ ذیل قانون وضع کیا جاتا ہے۔
۱مختصر عنوان اور آغاز نفاذایکٹ قانون فوجداری (ترمیمی ایکٹ ۱۹۹۲ء کے ناموسِ صحابہؓ و اہل بیتؓ کے نام سے موسوم ہوگا)۔
۲ایکٹ نمبر ۴۵ بابت ۱۸۶۰ء میں دفعہ ۲۹۸ الف کی ترمیم: مجموعہ تعزیرات پاکستان (ایکٹ نمبر ۴۵ بابت ۱۸۶۰ء) میں، دفعہ ۲۹۸ الف میں، الفاظ دونوں قسموں میں سے کسی قسم کی ایسی سزائے قید دی جائے گی جس کی میعاد تین سال تک ہوسکتی ہے یا سزائے جرمانہ دی جائے گی یا ہر دو سزائیں دی جائیں گی۔ الفاظ’’موت یا عمر قید کی سزا دی جائے گی۔‘‘ بدل دیئے جائیں گے۔ 
۳ایکٹ نمبر ۵ بابت ۱۸۹۸ء (ایکٹ نمبر ۵ بابت ۱۸۹۸ء) جدول ۲ میں دفعہ ۲۹۸ الف سے متعلقہ اندراج ہیں، کا نمبر ۵، ۷ اور ۸ میں موجود الفاظ کی بجائے علی الترتیب الفاظ ’’ناقابل ضمانت‘‘ موت یا عمر قید اور کورٹ آف سیشن بدل دیئے جائیں گے۔ بلاشبہ پاکستان میں فرقہ واریت کا تدارک قومی یک جہتی اور امن کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ اس جرم سنگین کی سزا ایک فتنہ کو روکنے کے لئے ناکافی ہے۔ لہٰذا دفعہ ۲۹۸ء الف کی سزا بہت کم ہے۔ یعنی ۳ سال یا صرف جرمانہ اور اس جرم کی سزا میں اضافہ لازمی ہے۔
محمد اعظم طارق، ممبر انچارج
اس پر سپیکر نے کہا ۔’’ایوان کثرت رائے سے اس بل کو منظور کرتا ہے اور اسے مزید غور کے لئے قائمہ کمیٹی کے سپرد کیا جاتا ہے۔‘‘ چونکہ اس بل کے کچھ مراحل ابھی باقی تھے۔ جن میں کوئی رکاوٹ بھی نہیں تھی۔ لیکن چند روز بعد ہی میاں نواز شریف نے خود ہی اسمبلی تحلیل کردی، جس سے وہ ایوان ہی ختم ہوگیا، جس نے آگے چل کر اس کام کو مکمل کرنا تھا۔
پاکستان ٹیلی ویژن ’’الیکشن آور‘‘ میں خطاب
مولانا محمد اعظم طارقؒ نے پاکستان ٹیلی ویژن پروگرام ’’الیکشن آور‘‘ میں اپنے مؤقف کو بڑے احسن طریقے سے پیش کیا۔ جسے بہت سراہا گیا۔ خصوصاً سپاہِ صحابہؓ پر فرقہ واریت کے حوالے سے عائد ہونے والے الزامات کے جواب میں مولانا شہید ؒ نے جماعتی مؤقف کو جس انداز میں بیان کیا، اس سے پاکستان کے وہ طبقات جو سپاہِ صحابہؓ کے بارے میں منفی پروپیگنڈے کا شکار ہوکر اس جماعت سے نالاں تھے، وہ بھی بہت زیادہ مطمئن ہوئے۔ دوسرے لفظوں میں آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ عوامی طبقوں میں سپاہِ صحابہؓ کو ایک بلند مقام عطا ہوا۔
جھنگ الیکشن اور کامیابی
۱۹۹۳ء کے الیکشن میں جھنگ کی سیٹ پر مولانا محمد اعظم طارقؒ کے مقابلہ میں مسلم لیگ نے اپنا کوئی اُمیدوار کھڑا نہیں کیا تھا، تاہم جو لوگ جھنگ میں سپاہِ صحابہؓ کے ہر حال میں مخالف رہنے کی قسم کھائے ہوئے تھے، انہوں نے شیخ اقبال کو آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لینے کے لئے تیار کرلیا۔ ادھر نواب اما ن اللہ سیال پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر کھڑے ہوگئے۔
ترقیاتی کاموں کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی میں ’’ناموسِ صحابہؓ و اہل بیتؓ بل‘‘ کے حوالہ سے جدوجہد کے باعث عوام میں الیکشن کی فضا سپاہِ صحابہؓ کے حق میں تھی۔ جھنگ میں قومی اسمبلی کی سیٹ کے علاوہ صوبائی اسمبلی کی سیٹیں بھی جیت لی گئیں، جس سے سپاہِ صحابہؓ کا مورال اور بلندہوگیا اور کارکنوں میں خوداعتمادی و تحفظ کااحساس پیدا ہوگیا۔
وزیر اعظم بے نظیر سے پہلی ملاقات اور کھری کھری باتیں
ایک روز قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر خالد کھرل خان ، مولانا محمد اعظم طارق کی نشست پر آئے اور کہا۔’’محترمہ وزیراعظم صاحبہ آپ سے بات کرنا چاہتی ہیں۔آپ وہاں سامنے ان کی نشست کے متصل دوسری نشست پر آجائیں۔‘‘
آپ نے جواب دیا۔’’اس طرح ساتھ والی نشست پر بیٹھ کر کم از کم میرے لئے ممکن نہیں ہے۔ اگر وہ ملاقات کی خواہش مند ہیں تو وزیراعظم ہاؤس کا وقت طے کرلیں۔‘‘
اگلے روز جب مولانا محمد اعظم طارق وزیراعظم ہاؤس پہنچے تو ایک بڑے کمرے میں بے نظیر صاحبہ سے ملاقات میں درج ذیل بات چیت ہوئی، ملاحظہ ہو!
محترمہ بے نظیر صاحبہ:۔۔۔ مولانا! آپ نے نہایت کم عمری میں سیاست کا یہ سفر کیسے طے کیاہے ؟ اور آپ کی جماعت بھی بڑی تیزی سے مقبول ہوئی ہے۔
مولانا محمد اعظم طارق :۔۔۔ دراصل ہمارا مؤقف اس قدر حقیقت اور سچائی پر مبنی ہے کہ جو ہر شخص کو آسانی سے سمجھ آجاتا ہے۔ ہم نظامِ خلافت راشدہؓ کا نفاذ چاہتے ہیں۔
محترمہ بے نظیر صاحبہ :۔۔۔ میں بھی اسلام کی خدمت کرنا چاہتی ہوں، آپ میرے ساتھ تعاون کریں۔
مولانا محمد اعظم طارق :۔۔۔ پھر آپ استعفیٰ دے دیں۔ کیونکہ اسلام میں عورت کی حکمرانی جائز نہیں اور جو خدمت آپ اسلام کے دائرہ میں رہ کر، کرسکتی ہیں، وہ کریں۔
محترمہ بے نظیر صاحبہ:۔۔۔ مولانا! اسلام میں تو وسعت ہے، اتنی سختی تو نہیں ہے۔

مولانا محمد اعظم طارق :۔۔۔ اسلام میں تو کیا کسی آسمانی شریعت میں اللہ نے کوئی نبی عورت نہیں بنائی اور کسی نبی کا خلیفہ عورت نہیں بنی اور شیعہ مذہب میں بھی پہلا امام حضرت علیؓ کو مانا گیا ہے، حضرت فاطمہؓ کو نہیں۔
محترمہ بے نظیر صاحبہ:۔۔۔ نہیں، میں شیعہ نہیں ہوں۔ میں حنفی سنی ہوں۔ میرے والد بھی حنفی سنی تھے۔ (مولانا محمد اعظم طارق ’’حنفی سُنّی‘‘ کا دعویٰ سن کر حیران رہ گئے) ہاں! میری والدہ اور آصف شیعہ ہیں۔
مولانا محمد اعظم طارق :۔۔۔ شیعہ سُنّی کا تو نکاح نہیں ہوسکتا ہے۔
محترمہ بے نظیر صاحبہ:۔۔۔ مولانا! آپ ایسی بات نہ کریں، ہمارے تو بچے بھی ہیں۔
مولانا محمد اعظم طارق :۔۔۔ دراصل شیعہ کے عقائد اہل سنت سے بالکل مختلف ہیں۔ اَب آپ خود سوچیں کہ ایران کے خمینی نے اپنی کتاب میں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓکو کافر و زندیق لکھا ہے، تَو وہ خود کیسے مسلمان ہوسکتا ہے؟ اسی طرح شیعہ صحابہ کرامؓ پر تبرا کرتے ہیں۔ عقیدہ امامت کے پیروکار ہیں، جسے اہل سنت کفر سمجھتے ہیں۔
محترمہ بے نظیر صاحبہ:۔۔۔’’ اگر خمینی نے یہ باتیں کی ہیں تو بہت غلط کیا ہے۔ وہ لوگ (یعنی حضرت ابوبکرؓو عمرؓ ) تو بڑے اچھے لوگ تھے۔ ویسے میں خمینی کو پسند نہیں کرتی۔ کیونکہ اس کی وجہ سے عالم اسلام میں آپس میں لڑائی شروع ہوگئی تھی۔‘‘اس ملاقات سے اگلے روز قومی اسمبلی میں آصف علی زرداری مولانا محمد اعظم طارق کے پاس آئے اور کہا۔’’آپ نے بی بی کو کیا کہا ہے؟‘‘مولانا شہید ؒ نے حیرت سے پوچھا۔’’کیا بات ہوئی ہے؟ کس بارے میں پوچھ رہے ہو؟‘‘
اس نے جواب دیا۔’’آپ نے کہا ہے کہ تمہارا نکاح نہیں ہوا ہے۔‘‘
مولانا شہید ؒ نے کہا۔’’کیا آپ شیعہ نہیں ہیں؟‘‘
زرداری بولے۔’’ہاں میں شیعہ ہوں، مگر میں تبرّا نہیں کرتا ہوں۔میں اہل بیتؓ کی محبت میں شیعہ ہوا ہوں۔ حالانکہ میرا والد اور خاندان سنی ہے۔‘‘
مولانا نے فرمایا۔’’ایک بات تو آپ نے تسلیم کرلی کہ شیعہ تبرا کرتے ہیں، شیعہ کے کفر کے اور بھی کئی اسباب ہیں۔‘‘
حکومت کی ٹال مٹول اور مولانا کا اسپیکر کی کرسی پر قبضہ
جون ۱۹۹۴ء کو پرائیویٹ ڈے کے موقع پر ناموسِ صحابہؓ و اہل بیتؓ بل ایجنڈے پر تیسرے نمبر پر تھا۔ جب پہلے اور دوسرے نمبر پر کارروائی مکمل ہوچکی تو اَب سپیکر اسمبلی کی ذمہ داری تھی کہ وہ اعلان کرتے۔’’اب ایجنڈا نمبر تین کی کارروائی شروع ہوتی ہے۔مولانا محمد اعظم طارق اُٹھ کر بل پیش کریں۔‘‘مولانا شہید ؒ کو اُٹھ کر بل کی عبارت پڑھنا تھی، پھر سپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے ایوان میں بل پیش کرکے اس پر رائے شماری کرائی جانا تھی۔ اگر ایوان میں موجود ممبران کی سادہ اکثریت اسے منظور کرلیتی تو قانون سازی کا ایک مرحلہ مکمل ہوجاتا۔
اس وقت ایوان کی صورت حال یہ تھی کہ مسلم لیگ کی طرف سے ’’ناموسِ صحابہؓ و اہل بیتؓ بل‘‘ پر دستخط کرنے والے اکثر ارکان اور دینی جماعتوں کے نمائندے تو موجود تھے۔ خود پیپلز پارٹی کے وہ نمائندے بھی موجود تھے، جنہوں نے اس بل پر دستخط کئے ہوئے تھے۔ جبکہ بل پر دستخط نہ کرنے والے ارکانِ اسمبلی، اسمبلی اجلاس میں موجود ہی نہ تھے۔ کیونکہ انہوں نے اس انداز میں بل کی حمایت کا یقین دلایا تھا کہ ہم نہ مخالفت کریں گے اور نہ حمایت!
حکومت کے لئے مرحلہ بڑا دشوار تھا۔ خصوصاً وزیرقانون و پارلیمانی امور سید اقبال حیدر جو کہ خود ایک متعصب رافضی ہے، اس صورت حال پر سخت پریشان تھا۔ کیونکہ اس کو نتیجہ صاف نظر آرہا تھا۔ چنانچہ قبل اس کے کہ سپیکر کی کرسی پر موجود ایوان چلانے والے ڈپٹی سپیکر سید ظفر علی شاہ جو اس بل کے ذاتی طور پر مخالف تھے، مولانا شہید ؒ کو عبارت پڑھنے کے لئے کہتے، اقبال حیدر نے چلاچلاکر کہنا شروع کردیا۔’’جنابِ سپیکر! اسلام آباد میں پانی کی کمی ہے۔ لہٰذا میری تجویز ہے کہ آپ پانی کی قلت کے مسئلہ پر بحث کی اجازت دیں اور تقاریر شروع کرائیں۔‘‘
ڈپٹی سپیکر بھی ان کی اس بات کی تائید کرتے ہوئے نظر آئے تَو مولانا شہید ؒ سمیت اپوزیشن مسلم لیگ کے ڈپٹی اپوزیشن لیڈر گوہر ایوب صاحب، پختون خواہ پارٹی کے پارلیمانی لیڈر محمود خان اچکزئی صاحب، جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر مظفر احمد ہاشمی صاحب، جمعیت علماء اسلام کے رہنما مولانا عبدالغفور حیدری صاحب اور کئی دوسرے ارکانِ پارلیمنٹ اُٹھ کر کھڑے ہوگئے اور بلند آواز میں پُرزور مطالبہ کرنے لگے کہ ایجنڈا کے مطابق مولانا محمد اعظم طارق کو بل پڑھنے کا موقع دیا جائے۔
ڈپٹی سپیکر نے موقع کی نزاکت کوبھانپتے ہوئے پہلے تو قائل کرنے کی کوشش کی کہ آئندہ ہفتہ تک اس مسئلہ کو مؤخر کردیا جائے۔ وفاقی وزیر یہی رٹ لگارہے تھے کہ بس آپ پانی کی بحث شروع کرائیں۔
اَب ڈپٹی سپیکر نے کہا۔’’اگر آپ لوگ وزیر موصوف کی تجویز تسلیم نہیں کریں گے تو میں اجلاس برخواست کردوں گا۔‘‘مولانا محمد اعظم طارق نے فرمایا۔’’ہم تو اسمبلی کے ضابطہ اور اصول کے مطابق اسمبلی چلانے کی بات کررہے ہیں اور آپ ایک شخص کی غلط اور بے اصول ضِد پر بے جا حمایت کئے جارہے ہیں۔ آپ انہیں حکم دیں کہ وہ خاموشی سے بیٹھیں اور اسمبلی کی اگلی کارروائی شروع کریں۔‘‘ڈپٹی سپیکر نے اعلان کردیا۔’’اجلاس برخواست کیا جاتا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر کرسی سے اُٹھ کر پچھلی دیوار میں لگے دروازے سے باہر نکل گئے۔
یہ اجلاس غیر اصولی طور پر ختم کیا گیا تھا۔ لہٰذا کوئی رُکن بھی اجلاس کی صدارت کرکے کارروائی چلاسکتا تھا۔ چنانچہ مولانا محمد اعظم طارق خود سپیکر کی کرسی پر پہنچ گئے اور اعلان کیا۔’’اسمبلی کا اجلاس شروع کیا جاتا ہے۔‘‘ اس پر ارکانِ اسمبلی ڈیسک بجاتے ہوئے بیٹھ گئے۔ مولانا محمد اعظم طارق نے بل کی عبارت پڑھی اور کہا کہ جو اس کی حمایت میں ہیں، ’’ہاں‘‘ کہیں۔ ہر طرف سے ’’ہاں،ہاں‘‘ کی آوازیں بلند ہوئیں۔
پھر مولانا شہید ؒ یوں گویا ہوئے کہ جو اس بل کی مخالفت میں ہیں، ’’ناں‘‘ کہیں۔ سوائے وزیر موصوف کے کسی نے ’’ناں‘‘ نہیں کہا۔ تَو مولانا شہید ؒ نے فرمایا۔’’بل پاس کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی اجلاس برخواست کیا جاتا ہے۔‘‘
مولانا محمد اعظم طارق سپیکر کی کرسی سے نیچے اُترے تو ارکانِ اسمبلی نے آگے بڑھ کر انہیں بل پاس ہونے کی مبارک باد دی۔ دوسرے روز اخبارات نے اس واقعہ کو شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کیا۔ بقول شاعر:
میری دیوانگی قائم ہے وہیں پر اَب تک
ورنہ ہر رنگ میں انسان بدل جاتا ہے
شاہ پور سرگودھا میں قاتلانہ حملہ، دو گن مین شہید
۲۲ اگست ۱۹۹۴ء کو مولانا محمد اعظم طارق اپنے دو گن مینوں حاجی امتیاز احمد، رشید احمد ، پرائیویٹ گن مین احسان اللہ، ڈرائیور فاروق نجمی، پی اے عبدالرحمن کے ہمراہ محو سفر تھے۔ سہ پہر قریباً ساڑھے تین بجے براستہ ساہیوال سرگودھا بذریعہ ڈالہ ٹویوٹا جارہے تھے۔ ساہیوال سرگودھا سے ذرا پہلے ایک پجارو گاڑی نے مخالف سمت سے کراس کیا۔ پچھلی سیٹوں پر بیٹھے ہوئے گن مینوں نے مولانا شہید ؒ کو بتایا کہ نواب امان اللہ رافضی جارہا ہے۔
مولانا محمد اعظم طارق نے فرمایا۔’’معمول کی بات ہے۔‘‘
تھوڑی دیر بعد گاڑی کے پچھلے حصہ پر بیٹھے ہوئے ساتھیوں نے بتایا ۔ ’’ایک سفید جیپ ہمارا تعاقب کر رہی ہے۔‘‘مولانا محمد اعظم طارق فرماتے ہیں۔’’میں نے شیشے سے منظر دیکھا تو جیپ کے بجائے ایک نئے ماڈل کا 42354سفید ٹویٹا ڈالہ ہماری طرف بہت تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ جس میں چند برقعہ پوش عورتیں اور چند نوجوان بیٹھے نظر آرہے تھے۔ میری چھٹی حس نے خطرے کا الارم دیا اور میں نے محسوس کیا کہ اگر یہ گاڑی ہمارے قریب پہنچ گئی اور یقیناًپہنچ جائے گی تو پھر حملہ کی صورت میں انتہائی نقصان کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ اس وقت ہم ساہیوال سے گزرچکے تھے۔ میں نے آواز دی فاروق! جواب ملا جی حضرت۔ میں نے کہا آگے ایک چھوٹا سا گاؤں آئے گا واڈھی، وہاں لکڑی کا ایک عارضی پل ہے، اس کے دوسرے کنارے کے پل پر گاڑی کھڑی کردینا، میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ یہ لوگ کیا کرتے ہیں۔‘‘
مولانا شہید ؒ کی گاڑی پل پر پہنچ کر رُک گئی تھی۔ ابھی حالات کا جائزہ بھی نہیں لے پائے تھے کہ دوسرے کنارے پر متعاقب گاڑی پہنچی، جس سے فوراً ہی راکٹ داغ دیا گیا۔ جو کہ ایک زبردست دھماکے سے پھٹا اور ہر طرف دھوئیں اور مٹی کے بادل چھاگئے۔ اسی دوران تعاقب کرنے والوں نے بڑی تیزی سے دستی بموں اور کلاشنکوفوں سے فائرنگ کا سلسلہ شروع کردیا۔ واضح رہے کہ یہ علاقہ روافض آبادی پر مشتمل ہے۔
اچانک حملے کے نتیجے میں حاجی امتیاز احمد گرنیڈ لگنے سے زخمی ہوچکا تھا جبکہ شاہد محمود بھی گرنیڈ لگنے سے بے ہوش ہوکر گاڑی کے اندر ہی گرچکا تھا۔ حاجی امتیاز احمد نے جرأت سے کام لیا، گاڑی سے ایک کپڑا نکال کراپنے زخم پر باندھا اور پھر دشمن پر فائرنگ شروع کردی۔ ان کی گن سے نکلنے والی ایک گولی دشمن کی گاڑی کی ونڈ سکرین توڑتی ہوئی ڈرائیور کو جا لگی، جس سے وہ بوکھلا گئے اور بوکھلاہٹ میں واپس دوڑنے کے لئے انہوں نے اپنی گاڑی کو موڑا لیکن گاڑی چند گز تک چل کر جواب دے گئی۔ ان میں سے ایک چیخا:
’’
اوئے! مولویوں نے ماردیا۔ جلدی گاڑی چھینو۔‘‘ اور پھر انہوں نے تھوڑی دیر میں گن پوائنٹ پر سڑک پر جاتی ہوئی ایک ٹویٹا ہائی ایس خالی کروالی اور جھنگ کی طرف بھاگ گئے۔
حکومت کی طرف کروڑوں کی آفر اور روپوشی کے چار ماہ
مولانا محمد اعظم طارق نے ۲۲ فروری ۱۹۹۵ء کو احرار پارک جھنگ میں یومِ شہادت امیر عزیمت مولانا حق نواز جھنگوی ؒ کے موقع پر عظیم الشان اجتماع میں یہ انکشاف کیا۔’’ مجھے حکومت کی حمایت یا کم از کم مخالفت نہ کرنے کی صورت میں بے نظیر حکومت کی طرف سے ایک کروڑ روپے ، پجارو گاڑی اور دیگر مراعات کی پیش کش کی گئی ہے۔ میں نہ صرف اس حکومتی رشوت کو پائے حقارت سے ٹھکراتا ہوں بلکہ اپنی تمام تر صلاحیتیں غیر شرعی نسوانی حکومت کے خاتمہ کے لئے صَرف کرتا رہوں گا۔ مجھے ان انکشافات کے بعد اب کسی وقت بھی گرفتار کیا جاسکتا ہے لیکن میں گرفتاری نہیں دوں گا۔‘‘
اگلے دن ڈی ایس پی لیاقت بودلہ کی سربراہی میں پولیس کی ایک بڑی نفری نے آپ کے گھر کا محاصرہ کرلیا۔ لیکن مولانا محمد اعظم طارق نے گرفتاری دینے کے بجائے روپوش رہنے کا فیصلہ کرلیا۔اوریوں آپ نے روپوشی اختیار کرلی۔
روپوشی کے خاتمے کا اعلان
مولانا محمد اعظم طارق نے باہمی مشاورت سے ۲۴ جون کو روپوشی کے خاتمہ کا اعلان کیا اور آئی جی پولیس سرحد کے آفس پہنچ کر گرفتاری دے دی۔ اس موقع پر صحافیوں اور کارکنوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔
پنجاب حکومت کی تبدیلی اور آپ کی رہائی
آپ کی گرفتاری کو اڑھائی ماہ کا عرصہ گزرچکا تھا۔ پنجاب حکومت میں شریک پیپلز پارٹی کے وزراء نے وزیر اعلیٰ پنجاب منظور وٹو پر عدم اعتماد کرتے ہوئے استعفے دے دیئے تھے۔
اگلے روز وزیراعلیٰ سرحد کی طرف سے مٹھائی کی ٹوکری مولانا شہید ؒ کے پاس پہنچ گئی اور کہا گیا ۔’’ہمارے ٹیلی فون کے ذریعے آپ اپنے ممبران اسمبلی کو یہاں بلوائیں۔‘‘ مولانا شہید ؒ نے ان سے کہا۔’’جب تک میں گرفتار ہوں، کسی قسم کا کردار ادا کرنے یا فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ آپ پہلے مجھے باعزت رہا کریں، بعد میں جماعت کے مشورہ کے مطابق جو پالیسی طے ہوگی، اس پر عمل ہوگا۔‘‘
مجبوراً مولانا محمد اعظم طارق کو وزیر اعلیٰ سرحد شیر پاؤ کے حکم پر۱۰ ستمبر ۱۹۹۵ء کو پشاور سے اسلام آباد روانہ کردیا گیا، یہاں سرحد ہاؤس میں شیخ حاکم علی موجود تھے۔ اگلے روز شیخ حاکم علی کے ہمراہ بذریعہ کار لاہور پہنچے۔ بعد ازاں لاہور سے بذریعہ کار آپ کو اسلام آباد لایا گیا جبکہ شیخ حاکم علی صاحب اور میاں ریاض حشمت صاحب بذریعہ ہوائی جہاز اسلام آباد پہنچے، یہاں بے نظیر بھٹو سے ملوایا گیا اور ٹی وی کیمرہ کے ذریعے فلم بنائی جانے لگی۔
مولانا محمد اعظم طارق نے صاف صاف کہہ دیا۔’’ ہم پنجاب میں اس وقت تک آپ کی حمایت یا مخالفت کے بارے میں کچھ نہیں کرسکتے، جب تک سپاہِ صحابہؓ کی مجلس شوریٰ کوئی فیصلہ نہ کرے۔‘‘ آپ نے ساتھ ہی فرمایا۔’’سپاہِ صحابہؓ کی مجلس شوریٰ کا اجلاس کل ہی ۱۲ ستمبر کو لاہور میں طلب کرلیا گیا ہے۔‘‘ چنانچہ رات ۹ بجے کے خبرنامہ میں ہو بہو انہی لفظوں کے ساتھ خبر نشر ہوئی کہ سپاہِ صحابہؓ کل اپنے لاہور کے اجلاس میں فیصلہ کرے گی۔
سپاہِ صحابہؓ کی مجلس شوریٰ کا اہم اجلاس
۱۶ ستمبر کو مرکزی دفتر جھنگ میں سپاہِ صحابہؓ کی مجلس شوریٰ کا اہم اجلاس منعقد ہوا۔ جس میں چاروں صوبوں کے ارکان کی مؤثر نمائندگی تھی۔ شوریٰ کے اجلاس میں، مولانا محمد اعظم طارق نے تفصیل کے ساتھ روپوشی سے لے کر اس وقت تک کے تمام حالات کو بیان کیا۔ رائے شماری کے وقت اکثریت نے آزاد حیثیت اختیار کرنے کے حق میں رائے دی۔ اسی وقت یہ فیصلہ تحریر کرکے سب شرکائے اجلاس کو سنایا گیا اور اسلام آباد میں مقیم شیخ حاکم علی اور میاں ریاض حشمت کو اس فیصلہ سے آگاہ کردیا گیا کہ جماعت کا یہ فیصلہ ہے۔
چنبہ ہاؤس لاہور سے گرفتاری
چنبہ ہاؤس لاہور میں قائدین سپاہِ صحابہؓ علامہ ضیاء الرحمن فاروقی اور مولانا محمد اعظم طارق حکومت کے ساتھ مذاکرات کررہے تھے۔ مذاکرات کی آڑ میں حکومت اپنی خواہشات کی تکمیل چاہتی تھی۔ مرضی کے نتائج نہ ملنے کی وجہ سے حکمران قائدینِ سپاہِ صحابہؓ سے نالاں تھے۔ چنانچہ رات ایک بجے پولیس کی بھاری نفری قائدین کو گرفتار کرنے اُن کمروں میں آپہنچی، جہاں قائدین الگ الگ کمروں میں آرام فرمارہے تھے۔ مولانا محمد اعظم طارق نے بیدار ہوتے ہی پولیس کو ساتھ چلنے کا اصرار کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا۔’’ٹھہرو، مجھے وضو کرلینے دو۔‘‘ آپ نے وضو کیا، چار رکعت ادا کیں اور علامہ ضیاء الرحمن فاروقی کے ہمراہ پولیس کی بھاری نفری کی گھیرے میں موقع پر موجود اپنے ساتھیوں کو سلام کیا اور وہاں سے روانہ ہوگئے۔
گرفتاری کے بعد قائدین کو مختلف شہروں کی مختلف جیلوں میں رکھا گیا اور ایک عرصہ تک کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔
آٹھ ماہ بعد پہلی بار عدالت میں پیشی
یہ جولائی کی پہلی تاریخ تھی۔ پولیس کی گاڑیوں کے جلوس میں قریباً آٹھ ماہ میں پہلی بار خصوصی عدالت میں پیش کیا گیا۔ اس موقع پر پولیس نے حفاظتی انتظام کے تحت وکلاء کے ساتھ کسی کو احاطہ عدالت میں نہ آنے دیا۔
خصوصی عدالت کے جج آصف خان کی عدالت میں بیان دیتے ہوئے قائد سپاہِ صحابہؓ علامہ ضیاء الرحمن فاروقی نے فرمایا۔’’ہمارے ساتھ آٹھ ماہ سے مسلسل زیادتی ہورہی ہے۔ آپ خود ہمارے مقدمہ سے واقف ہیں۔ مقدمہ کے تمام ارکان ہماری بے گناہی کے گواہ ہیں۔ لیکن اگر آپ کو بے گناہ قیدیوں کو بھی چھوڑنے کا اختیار نہیں ہے تو پھر اس عدالت کا کیا فائدہ ہے؟‘‘
علامہ ضیاء الرحمن فاروقی کی شہادت اور مولانا شدید زخمی
سیشن کورٹ لاہور میں عین اُس وقت جب قائد سپاہِ صحابہؓ علامہ ضیاء الرحمن فاروقی شہید ؒ اور جرنیلِ سپاہِ صحابہؓ مولانا محمد اعظم طارق پولیس کی گاڑی سے اُتر کر سیشن کورٹ کے احاطہ میں جارہے تھے، زور دار دھماکہ ہوا اور فضا لرز اُٹھی۔ اس سے قبل عدالت آتے ہوئے کیا کیفیت تھی، دھماکہ کے وقت کا منظر کیسا تھا، جرنیلِ سپاہِ صحابہؓ کی زبانی ملاحظہ ہو!
مولانا محمد اعظم طارق فرماتے ہیں۔’’آٹھویں روزے کی سحری کھاکر نمازِ فجر کے بعد معمولات سے فارغ ہوکر کچھ دیر آرام کیا۔ پھر جلد ہی بیدار ہوکر عدالت جانے کے لئے تیاری شروع کردی۔ قریباً گیارہ بجے پولیس کی ایک درجن گاڑیاں جیل کے پھاٹک پر پہنچ گئیں۔ ہمیں حسبِ سابق قیدیوں کی بڑی بس میں بٹھایا گیا۔ ہم نے دو کرسیاں اُٹھواکر بس میں رکھوالیں اور ان پر بیٹھ گئے۔ آج خلافِ معمول پولیس کا کوئی سپاہی ہمارے ساتھ نہیں بیٹھا تھا۔ ورنہ ہر دفعہ پولیس کے کم از کم دس بارہ جوان ہمارے ساتھ ہوتے تھے۔ ہم نے بس کے اندرونی حصے کا جائزہ لیا۔ سپاہِ صحابہؓ کے اسیروں کی طرف سے لکھے ہوئے دلچسپ و عجیب نعرے اور اشعار نظر آئے۔ گاڑیاں سیشن کورٹ کے احاطے میں داخل ہورہی تھیں۔ ہم نے بس کی جالیوں سے باہر جھانک کر دیکھا۔ پولیس کی بھاری نفری نے ہماری گاڑی کو محاصرے میں لے لیا تھا اور کارکن پولیس کے محاصرے سے پیچھے گاڑیوں کے ساتھ ساتھ دوڑتے ہوئے نعرے لگارہے تھے۔ اس منظر کو دیکھ کر قائد محترم (علامہ ضیاء الرحمن فاروقی فرمانے لگے۔’’یہ کارکن لوگ بھی کیسے دیوانے ہوتے ہیں۔ پچھلی دفعہ تاریخِ پیشی پر یہاں پکڑ دھکڑ ہوئی۔ پولیس نے گرفتاریاں کیں، لاٹھی چارج کیا۔ اس دفعہ پھر پہلے سے زیادہ تعداد میں جمع ہوگئے ہیں۔ انہیں گرفتاری یا پولیس کے مظالم کی بھی پرواہ نہیں ہے۔‘‘ میں نے کہا۔’’دراصل انہیں معلوم ہے کہ اگر پولیس گرفتار کرے گی تو وہ جیل میں ہمارے پاس آجائیں گے۔‘‘ قائد محترم ہنس پڑے اور فرمانے لگے۔’’یہ لوگ مخلص اور پروانے ہیں۔‘‘ قائد محترم گاڑی سے باہر نکلے اور کارکنوں کوہاتھ ہلاکر سلام کیا۔ ان کے فوراً بعد میں نکلا۔ کارکن ہمیں دیکھتے ہی جوش و جذبے کے ساتھ نعرے لگانے اور پھولوں کی پتیاں نچھاور کرنے لگے۔ ہم کمرۂ عدالت کی طرف چل دیئے۔ ادھر اخبارات کے فوٹو گرافرز تیزی سے ہماری تصاویر بنارہے تھے۔ اس لئے ہم قدرے آہستہ آہستہ آگے قدم بڑھانے لگے۔ ابھی بمشکل چار پانچ قدم ہی چلے ہوں گے۔ میرا دایاں پاؤں عدالت کے برآمدہ میں پڑنے ہی والا تھا کہ اچانک ایک ہولناک دھماکہ ہوا اور ہم فضا میں اُچھلے۔ فوراً میرے ذہن میں آیا کہ تخریب کاری ہوگئی ہے۔ اس کے بعد معلوم نہیں ہم کس قدر فضا میں بلند ہوکر اوندھے منہ آگے کی جانب زمین پرجاگرے اور میں گرتے ہی بے ہوش ہوگیا۔ چند لمحوں بعد ہی مجھے ہوش آیا، میں اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ اِدھر اُدھر نظر دوڑائی تو ہر طرف دھواں ہی دھواں تھا۔ میرے دائیں بائیں جانب درجنوں لوگ اوندھے منہ پڑے ہوئے تھے۔ ابھی سب پر سکتہ کی کیفیت طاری تھی۔ مکمل خاموشی تھی۔ میرے سامنے حضرت فاروقی بھی زخمی حالت میں پڑے تھے۔ اسی دوران میرا سر چکرانے لگا۔ لیکن اگلے ہی لمحے میں نے کلمہ طیبہ لا الٰہ الا اللہ محمدرسول اللہ پڑھ کر دعاء انسؓ پڑھنا شروع کردی جو کہ میرا کئی سالوں سے خاص وظیفہ ہے۔ اب میری طبیعت میں سکون پیدا ہوچکا تھا۔ وجود پر نظر دوڑائی تو حیران رہ گیا کہ دائیں پاؤں سے بوٹ اور جراب تک غائب تھی۔ پاؤں کی چھوٹی انگلی اور ایڑی کٹ کر لٹک رہی تھی۔ ٹانگوں سے تیزی کے ساتھ خون رِس رہا تھا۔ ہاتھوں سے بھی خون رِس رہا تھا۔ لیکن مجھے تکلیف کا بالکل احساس نہیں تھا۔ میں نے دائیں بائیں نظر دوڑائی تو دُور دُور تک کوئی شخص چلتا پھرتا نظر نہ آیا۔ بس ہر طرف لاشیں ہی لاشیں تھیں۔ پولیس کمانڈوز کے ہاتھوں میں موجود کلاشن کوفوں کے اسپرنگ اور لوہے کے ٹکڑے میرے چاروں طرف بکھرے پڑے تھے۔ میں نے سوچا کہ یہ بم کے ٹکڑے ہیں۔ دشمن نے ہم پر گرنیڈوں سے حملہ کیا ہے۔ اسی دوران کارکنوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ جو ’’قائدین قائدین‘‘ کی آوازیں بلندکرتے ہوئے اس طرف بڑھ رہے تھے۔ سب سے پہلے میرے پاس قاری محمد احمد مجاہد اپنے ایک اور ساتھی کے ہمراہ پہنچے اور میرے سینے پہ کان لگاکر دل کی دھڑکن چیک کرنا چاہی۔ میں نے ان سے کہا۔’’میں بالکل ٹھیک ہوں۔ آپ مجھے چادر دیں۔‘‘ ان کی گرم چادر بطور تہہ بند باندھ کر اُٹھ کھڑا ہوا۔ کچھ قدم آگے چلا تو میں نے کہا:’’ الحمدللہ! میں تو بالکل ٹھیک ہوں۔‘‘ پھر ہم لاشوں کے ٹکڑوں کے پاس سے گزرتے ہوئے آگے بڑھے۔ جہاں پر ایک مجسٹریٹ کی گاڑی کھڑی تھی۔ میں اس کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا۔ ایک ساتھی کے کہنے پر منہ پر رومال لپیٹ لیا تاکہ شناخت نہ ہو۔ میوہسپتال میں ایمرجنسی وارڈ کے سامنے میں خود اُتر کر ساتھیوں کے سہارے ہسپتال پہنچا۔ ہسپتال کے عملے سے جب میرا تعارف ہوا، وہ تیزی سے میر ی طرف بڑھے۔ میرے زخموں کو دھونا شروع کردیا۔ تھوڑی دیر بعد میں نے آنکھیں کھولیں۔ ماحول کا جائزہ لیا۔ پھر اپنے وجود کی طرف دیکھا۔ سارا جسم پٹیوں میں جکڑا ہوا نظر آیا۔ تین چار گھنٹے گزر چکے تھے۔ میں اپنے قائد کی راہیں تکتے تکتے تھک چکا تھا۔ میرا انتظار شدید اضطراب میں بدل چکا تھا۔ آخر بے قراری انتہا کو پہنچ گئی۔ میں نے تلخ لہجے میں موقع پر موجود پولیس اہلکاروں اور اپنے کارکنوں سے کہا۔’’تم لوگ مجھے کیوں نہیں بتاتے ہو کہ میرے قائد کہاں ہیں؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ معمولی زخمی ہوکر میرے پاس آنے کے بجائے کہیں اور چلے جائیں۔‘‘ وہ خاموشی سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔پھر جب میرا اصرار حد سے بڑھ گیا تو ایک پولیس انسپکٹر میرے قریب آیا اور میرا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر اپنا منہ میری پیشانی پر رکھا اور بے اختیار پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گیا۔ اسے روتا دیکھ کر میری روح کانپ گئی اور دل دھک دھک کرنے لگا۔ پھر اس نے روتے ہوئے کہا۔’’مولانا ضیاء الرحمن فاروقی اور ہمارے پچیس نوجوان شہید ؒ ہوچکے ہیں۔ ہم آپ کو اَب کہاں سے آپ کا قائد لاکر ملوائیں۔‘‘
یہ قیامت کی خبر تھی جسے سنتے ہی میں بے خود ہوگیا اور پٹیوں میں جکڑے جسم کے ساتھ ساتھ اُٹھ کر بیٹھنے لگا مگر اُٹھتے ہی گر پڑا۔ مجھے اپنے جسم کے تمام زخم بھول گئے اور دِل کے زخم جاگ اُٹھے، جنہوں نے مجھے تڑپاڈالا۔
مولانا محمد اعظم طارقؒ کی والدہ ماجدہ کا انتقال
مولانا محمد اعظم طارق کو چوبیس گھنٹوں میں دو بڑے صدمات برداشت کرنا پڑے۔ ایک طرف باپ جیسا شفیق قائد اور مہربان بھائی، مولانا کے ساتھ قید و بند کا سفر طے کرتے کرتے دُنیا سے منہ موڑ چکا تھا اور اَب دوسری طرف ماں جیسی عظیم شخصیت اور پیار و محبت کے حسین پیکر کی آنکھیں سوا سال سے راہیں تکتے تکتے بند ہوچکی تھیں۔
مولانا محمد اعظم طارق کہتے ہیں۔’’ٹھیک دو ماہ قبل میں ایسا خواب دیکھ چکا تھا، جو میں نے اپنے قائد کو بھی سنایا تھا کہ میں ایسے درختوں کے جنگل کو پھلانگتا چلا جارہا ہوں، جن درختوں پر پتے بالکل نہیں کانٹے ہی کانٹے ہیں اور جب آگے بڑھتا ہوں تو ایسے صحرا میں چلنا شروع کردیتا ہوں۔ جو اتنا گرم ہے کہ میں ایک پاؤں رکھتا ہوں تو فوراً اسے اُٹھالیتا ہوں، دوسرا رکھتا ہوں تو اسے جلدی سے اُٹھالیتا ہوں۔ میرے پاؤں ننگے ہیں مگر تیزی سے آگے ہی بڑھ رہا ہوں۔ کیونکہ میرے ذہن میں یہ بات ہے کہ اس صحرا سے آگے مولانا حق نواز جھنگوی ؒ موجود ہیں۔ اس کے بعد میں ایک مسجد میں چلاجاتا ہوں، جہاں میری ملاقات مولانا جھنگوی سے ہوجاتی ہے۔ مسجد کی طرف آتے ہی میں دیکھتا ہوں کہ کسی بزرگ شخصیت کو آخری غسل دیا جارہا ہے اور کفن پہنایا جارہا ہے۔ غسل دینے والے ایسے لوگ ہیں جیسے فرشتے ہوں۔ لیکن میں اس بزرگ کی شخصیت کا جنازہ نہیں پڑھ سکا ہوں۔ اس خواب کی تعبیر اس وقت نہ سمجھ آنا تھی، نہ آئی۔ لیکن اب اس خواب کی تعبیر رفتہ رفتہ کھلتی چلی جارہی تھی۔ اب ایک ایک منظر میرے سامنے تھا اور میں ان راہوں سے گزر رہا تھا۔ یہ سفر میرے گمان میں ابھی تک جاری ہے اور میں منتظر ہوں کہ اس کا اختتام مولانا جھنگوی کی مسجد میں ان سے ملاقات پر کیسے ہوتا ہے۔‘‘
پیرول پر رہائی
والدہ کی وفات پر حکومت نے تین دن کے لئے مولانا محمد اعظم طارقؒ کو پیرول پر رہا کرنے کے آرڈر جاری کردیئے اور زخموں سے چُورچُور آپ کو ایک ایمبولینس کے فرش پر فوم کے گدے پر لٹاکر رات ساڑھے بارہ بجے جھنگ لایا گیا۔ وہاں پہنچنے سے صرف ایک گھنٹہ پہلے قائد محترم علامہ ضیاء الرحمن فاروقی شہید ؒ کو جامعہ محمودیہ جھنگ میں سپردِ خاک کیا جاچکا تھا۔
والدہ کی جدائی بھی مولانا محمد اعظم طارق کے لئے ایک بہت بڑا صدمہ تھی۔ آپ اپنے جسم پر ایک سو سے زائد زخم سجائے والدہ کی آخری زیارت کے لئے پیرول پر رہا ہوکر اپنے آبائی گاؤں 111/7پہنچے اور والدہ کی نمازِ جنازہ اور تدفین میں شریک ہوئے۔ گاؤں میں دو دن کے قیام کے بعد پھر ایمبولینس کے ذریعے سمندری پہنچے۔ وہاں آپ کو ڈاکٹروں نے بتایا کہ آپ کے زخموں میں بم کے ٹکڑے موجود ہیں، اس لئے فوری طور پر ان کا بڑا آپریشن کرانا ہوگا۔ اگلے روز صبح ہی لاہور پولیس کی گاڑیاں آپ کو لینے کے لئے پہنچ گئیں۔ مجسٹریٹ نے پیغام دیا کہ آپ کے پیرول پر رہائی کے تین دن گزشتہ روز پورے ہوچکے ہیں۔ اَب لاہور چلیں۔ علاج وہیں ہوگا۔ ۲۷ جنوری پیر کے دن ڈاکٹروں کے ایک بورڈ نے ان کے تمام زخموں کاتین گھنٹے تک آپریشن کیا اور بم کے ٹکڑے جسم سے باہر نکالے۔ زخمی حالت میں سفر کرنے کے باعث زخم اندر سے خراب ہوچکے تھے۔ دائیں ٹانگ بالکل مفلوج ہوچکی تھی۔ پہلے روز تو ڈاکٹرز نے میوہسپتال میں ٹانگ کاٹنے کا مشورہ دیا تھا۔ لیکن مولانا نے صاف صاف کہہ دیا۔’’مجھے مرجانا قبول ہے مگر ٹانگیں نہیں کٹواؤں گا۔‘‘ سروسز ہسپتال میں آپریشن کے بعد زخموں پر پٹیاں لگاکر انہیں واپس روم نمبر ۲ میں بھیج دیا گیا۔ پورا جسم زخمی تھا، جیسے میدانِ جنگ میں دشمن نے نیزوں اور تلواروں سے چھید دیا ہو۔
الیکشن کیلئے پیرول پر رہائی
۱۸ جنوری کو بم دھماکہ سے لگنے والے اَسّی سے زائد زخموں کا دوسری مرتبہ ہونے والے ۲۷ جنوری کے آپریشن کے بعد طبیعت نقاہت و کمزوری کا شکار تھی۔ اُٹھ کر بیٹھنے کی بھی طاقت نہ رہی تھی۔ آپ اپنے تیمار دار دوستوں کے ہمراہ ۳۱ جنوری اور یکم فروری کی درمیانی شب تین بجے سروسز ہسپتال سے فیصل آباد روانہ ہوئے۔ وہاں حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمی سے ملاقات ہوئی۔ ادھر جھنگ کے عوام استقبال کے لئے فیصل آباد روڈ پر گاڑیاں، موٹر سائیکلیں، ٹریکٹر، ویگنیں لے کر فیصل آباد ایئرپورٹ تک پہنچ گئے تھے۔ چنانچہ مولانا وہاں سے روانہ ہوئے۔ جب جھنگ روڈ پر پہنچے تو لوگ دیوانہ وار ایمبولینس کے پیچھے بھاگنے لگے۔ مولانا شہید ؒ بیڈ پر لیٹے ہوئے ہاتھ کے اشاروں سے لوگوں کے سلام کا جواب دے رہے تھے۔ یہ عوام کی بے پناہ محبت اور جذبات تھے کہ آپ گھنٹوں ان کے سلام کا جواب اشاروں سے دیتے رہے۔ ورنہ مولانا شہید ؒ کی طبیعت اس بات کی اجازت نہیں دے رہی تھی۔ 
شام چار بجے ’’بی بی سی‘‘ اور ’’وائس آف امریکہ‘‘ کی مطالعاتی ٹیموں نے ملاقات کی اور اطلاع دی۔’’آپ پندرہ سے بیس ہزار ووٹ کی لیڈ سے جیت رہے ہیں۔‘‘ جرنیلِ سپاہِ صحابہؓ مولانا محمد اعظم طارق ؒ نے پوچھا۔’’وہ کیسے؟‘‘ جواب ملا۔’’شہر میں آپ کے ووٹ کی کاسٹ بہت زیادہ ہے۔ دیہاتوں میں ووٹ کاسٹنگ کی شرح بہت کم ہے۔ جس کا فائدہ آپ کو ہوگا۔‘‘چنانچہ آدھی رات تک سامنے آنے والے نتائج میں صوبائی سیٹ ہارگئے جبکہ قومی اسمبلی کی سیٹ پندرہ ہزار ووٹوں سے ہاری جاچکی تھی۔ مولانا محمد اعظم طارق ؒ خود اپنے کارکنوں کے فون سنتے اور جواب دیتے رہے۔ ساتھ ساتھ اپنے ساتھیوں کا حوصلہ بھی بڑھاتے رہے۔
الیکشن ۱۹۹۷ء میں ملک کے نامور دینی و سیاسی رہنما اسی طرز کی دھاندلی کو اختیار کرنے کا الزام حساس اداروں پر لگاچکے تھے۔ کیونکہ خود صدرِمملکت نے الیکشن کے روز شام کے وقت اپنے انٹرویو میں اقرار کیا تھا ۔’’ووٹوں کی کاسٹنگ کا تناسب ۲۵ فیصد سے تیس فیصد کے درمیان رہا ہے۔‘‘ جبکہ بعد میں جو رزلٹ سامنے آیا، اس کے مطابق ٹرن آؤٹ چالیس سے پینتالیس فیصد کے درمیان رہا۔
۳ فروری کے الیکشن میں صوبائی حلقہ ۶۵ پی پی کی سیٹ پر مولاناصرف ۹۴ ووٹوں سے ہار رہے تھے جبکہ سرکاری ووٹوں کی گنتی پر مولانا شہید ؒ کے ووٹ ایک سو ستّر نکلے اور مخالف اُمیدوار کے صرف پینتیس، جس کی وجہ سے مولانا محمد اعظم طارق کو کامیاب قرار دے دیا گیا تھا۔
عیدالفطر کے اگلے روز مولانا محمد اعظم طارق ؒ نے ایس ایس پی جھنگ کو مطلع کیا۔’’میں لاہور جانا چاہتا ہوں۔ پولیس کو یہاں بھیجنے کے بجائے جھنگ سے باہر فیصل آباد روڈ پر بھجوادیں تاکہ جھنگ میں کسی قسم کا اشتعال پیدا نہ ہو۔‘‘
چنانچہ مولانا محمد اعظم طارقؒ اپنی گاڑی پر جھنگ سے باہر نکلے اور پولیس کے ہمراہ لاہور سروسز ہسپتال پہنچ گئے۔ ڈاکٹرز آپ کو دیکھ کر کہنے لگے۔’’اگر اتنا اچھا علاج جھنگ کے ڈاکٹرز کر رہے تھے تو آپ یہاں لاہور کیوں آگئے؟‘‘ مولانا محمد اعظم طارقؒ نے جواب دیا۔’’میں خود نہیں آیا، پولیس لائی ہے۔ کیونکہ میں ابھی گرفتار ہوں۔‘‘ ڈاکٹرز نے ڈسچارج رپورٹ بناکر پولیس حکام کے حوالے کردی۔ 
پولیس اہلکار مولانا محمد اعظم طارقؒ کو ایمبولینس کے ذریعے باہر لانے لگے تو آپ نے پوچھا۔’’کدھر کا ارادہ ہے؟‘‘ جواب ملا۔’’کوٹ لکھ پت جیل کا۔‘‘
مولانا محمد اعظم طارقؒ نے اپنے ڈرائیور سے کہا۔’’گاڑی موڑو اور واپس ہسپتال پہنچو۔ایم ایس کے دفتر لے چلو۔‘‘ آپ وہاں پہنچے تو ایم ایس دفتر چھوڑ کر باہر نکل چکے تھے۔ اب جس ڈاکٹر کا پتہ کیا جاتا، وہ غائب نظر آتا۔ چنانچہ رات گئے گورنر پنجاب کی ہدایت پر آپ کو ہسپتال کے ایک خالی وارڈ میں شفٹ کردیا گیا، جہاں آپ کا علاج شروع کردیاگیا۔
عید کے تیسرے روز حلقہ ۶۵ پی پی جھنگ کے سرکاری ملازمین کے بھیجے گئے پوسٹل ووٹوں اور پورے حلقہ میں ڈالے گئے متنازعہ ووٹوں کی گنتی شروع ہوگئی۔ ریٹرننگ آفیسر نے سب اُمیدواروں سے دستخط لے کر نتیجہ کا اعلان کردیا۔ جیسے ہی عدالت میں موجود سپاہِ صحابہؓ کے کارکنوں کو نتیجہ معلوم ہوا، وہ خوشی سے دیوانے ہوگئے، ان کے چہروں پر مسکراہٹ رقص کرنے لگی۔ 
جھنگ میں اعلان کردیا گیا کہ صبح دس بجے جامع مسجد حق نواز شہید ؒ میں مولانا اعظم طارق کا فون پر خطاب ہوگا۔ جیسے ہی مولانا شہید ؒ کے فون کی گھنٹی بجی، مسجد نعروں سے گونج اُٹھی۔ مولانا محمد اعظم طارق ؒ نے جھنگ کے عوام کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا۔’’آج ایک مرتبہ پھر اللہ تعالیٰ نے شہیدوں کے خون اور اسیروں کی قربانیوں کے صدقہ، آپ لوگوں کو خوشیاں نصیب کردی ہیں۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں اپنی تمام تر توانائیاں اور صلاحیتیں حق کی تکمیل کے لئے لٹادوں گا۔‘‘مولانا محمد اعظم طارقؒ کے خطاب نے کارکنوں میں ایک نئی روح پھونک دی تھی۔
آپ کی صحت یابی
۱۸ فروری کے دن اس وقت دنیا حیران اور ڈاکٹرز حیرت سے آپ کو دیکھتے رہ گئے، جب آپ نے اللہ تعالیٰ کے سہارے صوبائی اسمبلی لاہور کے سامنے گاڑی سے اُتر کر آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اسمبلی کا دروازہ کراس کیا اور پھر ایوان کے اندر پہنچ گئے۔ حلف کی تقریب ٹیلی ویژن پر دکھائی جارہی تھی۔
جب مولانا محمد اعظم طارق ؒ کو اپنی سیٹ سے سپیکر کی کرسی تک چلتے ہوئے دکھایا گیا تو سپاہِ صحابہؓ کے لاکھوں جانثاروں کی زبان سے ’’اللہ تیرا شکر ہے‘‘ کے الفاظ جاری ہوگئے۔ اسمبلی سے واپسی پر ڈاکٹرز نے مولانا محمد اعظم طارقؒ کو حلف اُٹھانے پر مبارک باد دیتے ہوئے کہا۔’’ہم آپ کے حوصلے اورہمت کی داد دیتے ہیں۔‘‘ آپ نے جواباً فرمایا۔’’یہ سب صحابہ کرامؓ کے نام کی برکت ہے۔‘‘اگرچہ مولانا شہید ؒ کے زخم بڑی حد تک مندمل ہوچکے تھے۔ لیکن دائیں پنڈلی میں بم کا ایک ٹکڑا موجود تھا۔ جس کی وجہ سے چلنے پھرنے میں بہت دِقّت پیش آرہی تھی۔ ڈاکٹرز نے مشورہ دیا کہ اس بڑے ٹکرے کو نکلوالیا جائے۔ مولانا محمد اعظم طارقؒ ۱۱ اپریل کو جامعہ عمرفاروقؓ کے جلسہ سے خطاب کرکے ۱۲ اپریل کو سیدھا سول ہسپتال جھنگ پہنچ گئے۔ ڈاکٹر سرجن محسن مگھیانہ، ڈاکٹر خالد چوہدری، ڈاکٹر ظفر پاتوآنہ اور ان کے ساتھی مولانا کے منتظر تھے۔ چنانچہ آپریشن تھیٹر روم میں آپ کا آپریشن کیا گیا۔
پی ٹی وی پر رافضی لیڈر کا مذاکرے سے فرار
تاریخِ زمانہ سے یہ ثابت ہے حقیقت
حق سامنے ہو تو کبھی باطل نہیں آتا
تیسری مرتبہ آپریشن ہوئے ابھی صرف پانچ دن گزرے تھے۔ اسلام آباد سے فون آیا کہ زاہد میر صاحب آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ کال ریسیو کی تو دوسری طرف سے آواز اُبھری۔’’مولانا! میں زاہدمیر بول رہا ہوں۔ میں رُکن صوبائی اسمبلی پنجاب ہوں۔محرم الحرام کی آمد آمد ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ کو اور تحریک جعفریہ کے لیڈروں کو آمنے سامنے بٹھاکر فرقہ وارانہ فسادات کے عنوان پر گفتگو کی جائے۔ لہٰذا اس بدھ کے روز ۲۳ اپریل کو آپ اسلام آباد ٹی وی اسٹیشن تشریف لائیں۔‘‘
اَب ۲۳ اپریل شام آٹھ بجے اسلام آباد ٹی وی اسٹیشن پہنچنے کا پروگرام حتمی طور پر طے ہوچکا تھا۔ چنانچہ مولانا محمد اعظم طارقؒ نے ۲۲ اپریل کواخبارات میں یہ خبر بھجوادی۔’’کل ۲۳ اپریل کو ٹی وی پر ہونے والے مذاکرہ کیلئے روافض کی دِل آزار کتب جمع کرنا اور علماء سے ملاقاتیں کرنا شروع کردیں۔ تاکہ ٹی وی پر اپنے موقف کوٹھوس انداز میں پیش کیا جاسکے اور مولانا اعظم طارقؒ سخت علیل ہونے کے باعث چلنے پھرنے سے قاصر ہیں۔ لیکن پھر بھی وہ اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔‘‘
ادھر معلومات حاصل کی گئیں کہ روافض کی طرف سے کس قسم کی تیاریاں جاری ہیں۔ معلوم ہوا کہ وہ لوگ کافی تعداد میں جمع ہورہے ہیں۔ شاید ان کا پروگرام ہے کہ وہ ٹی وی اسٹیشن کا گھیراؤ کئے رکھیں گے تاکہ مولانا ذہنی طو رپر دباؤ کا شکار رہیں۔ اور اگر کوئی ایسی ویسی بات ان کے منہ سے نکل جائے تو وہ فوراً ٹی وی اسٹیشن پر اپنی زیادہ سے زیادہ حاضری یقینی بنائیں۔ 
جہاں تک ذہنی دباؤ کی بات تھی۔ جرنیلِ سپاہِ صحابہمولانا محمد اعظم طارق ؒ نے فرمایا۔’’اِن شاء اللہ العزیز میں آج ایسے ایسے حقائق بیان کروں گا کہ لوگ صدیوں تک یاد رکھیں گے اور ہمارا مؤقف دنیا کے سامنے واضح ہوجائے گا۔ مجھے سو فیصد یقین ہے فریق مخالف کبھی بھی نہیں آئے گا۔‘‘
چشمِ فلک نے دیکھا کہ پھر ایسا ہی ہوا۔ ٹی وی حکام کی ہزار منت سماجت اور اپیل کے باوجود اُدھر سے ایک ہی جواب تھا۔’’ہم نہیں آسکتے۔‘‘ٹی وی ذمہ داران اور حکام نے مایوس ہوکر مولانا محمد اعظم طارقؒ سے کہا۔’’مولانا! ہم جو سنتے آئے تھے، وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ واقعی یہ وہ لوگ ہیں جو بہت بڑے دھوکے باز اور چالباز ہیں۔ ہم حیران ہیں کہ یہ لوگ اپنی جماعت کے اتنے بڑے علامہ اور لیڈرہوکر اس قدر غلط بیانی اور وعدہ خلافی کرتے ہیں۔ آج واقعتا آپ کی اخلاقی فتح کا دن ہے۔‘‘
مولانا نے فرمایا۔’’اگر رافضی لیڈر نہیں آئے ہیں، آپ پروگرام شروع کریں اور مجھے اپنا نظریہ پیش کرنے کا موقعہ دیں۔‘‘ انہوں نے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مشاہد حسین سے فون پر بات کی کہ ایساکیوں نہ کرلیا جائے کہ مولانا کو موقعہ دیا جائے۔ مشاہد حسین، جو ایک متعصب رافضی ہے، اس نے کہا۔’’ہرگز نہیں، ہم مولانا اعظم طارقؒ صاحب کو وقت نہیں دے سکتے۔‘‘مولانا محمد اعظم طارق نے مجبوراً اخبارات کے دفاتر کا رُخ کیا اور رات بارہ بجے تک اخبارات کو تمام کارروائی سے مطلع کرتے رہے تاکہ صبح عوام کے سامنے حقائق آسکیں۔ دنیا بھر سے لوگ یہ معلوم کررہے تھے کہ پروگرام نشر کیوں نہیں ہوا؟ جب انہیں روافض کے فرار کی خبر سنائی جاتی تو وہ خوشی سے نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے کہتے۔’’آج ثابت ہوگیا ہے کہ باطل ، حق کے مقابلہ میں آنے سے قاصر ہے۔‘‘
فروری ۱۹۹۵ء کے بعد تیسری بار گرفتاری
مولانا محمد اعظم طارقؒ نے لاہور پہنچ کر لٹن روڈ پر واقع سپاہِ صحابہؓ کے مرکزی رابطہ آفس میں ایک پُرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کیا، جس میں بی بی سی اور وائس آف جرمنی کے نمائندے بھی شریک ہوئے۔ یہاں سے فارغ ہوکر ماڈل ٹاؤن میں ایک دوست کے گھر کھانا کھایا۔ اتنے میں ایس پی ماڈل ٹاؤن میجر مبشر وہاں آپہنچے۔ انہوں نے مولانا شہید ؒ کو بتایا کہ ساڑھے چار بجے پنجاب سیکرٹریٹ میں ہوم سیکرٹری آفس میں ہونے والی ایک اہم میٹنگ میں آپ کو طلب کیا گیا ہے۔ آپ پنجاب سیکرٹریٹ پہنچے تو وہاں ایس پی ایڈمن محمد اسلم ساہی اور ایس پی میجر مبشر کے سوا کوئی ذمہ دار آفیسر موجود نہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ اب یہ میٹنگ گوجرانوالہ میں ہوگی۔ ان کے ہمراہ گاڑی میں بیٹھ کر مولانا محمد اعظم طارق جب سیکرٹریٹ سے باہر نکلے تو گاڑی مال روڈ پر دوڑنے لگی۔ ان دونوں افسران نے کہا۔’’پروگرام بدل دیا گیا ہے۔ اَب یہ میٹنگ چوہنگ سب جیل میں ڈی آئی جی، سی آئی ڈی میجر مشتاق احمد کی صدارت میں ہونی ہے۔‘‘ ان افسران نے دو مرتبہ غلط بیانی سے کام لیا تھا۔
مولانا محمد اعظم طارق ؒ شام ساڑھے پانچ بجے چوہنگ سب جیل میں ڈی آئی جی کے آفس میں پہنچے تو وہ وہاں پر موجود نہ تھے۔ یہ افسران آپ کوچھوڑ کر چلے گئے۔ چند لمحات کے بعد دو سپاہی آئے اور مولانا محمد اعظم طارقؒ کو بازوؤں سے پکڑا اور بدنامِ زمانہ عقوبت خانہ میں لے گئے اور سیل نمبر۴ میں لے جاکر بند کردیا گیا۔ یہاں پر تین دن اور تین راتوں تک آنکھیں باندھ کر مسلسل کھڑا کرکے تفتیش کی جاتی اور ظلم و تشدد کا بازار گرم کئے رکھا۔ اسی دوران اذیتوں کے ایسے حربے اور انداز بھی استعمال کئے گئے، جنہیں بیان کرتے ہوئے بھی دِل کانپ اُٹھتا ہے۔ ساڑھے تین ماہ بعد جب آپ کو چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کے طلب کرنے پر لایا گیا تو آپ کی ذاتی رقم سے دس ہزار روپیہ آپ ہی پر خرچ کرکے آپ کو حساب پیش کردیا گیا۔
نظر بندی کے اختتام پر رہائی کا راستہ روک دیا گیا
نظر بندی کی مُدّت پانچ اگست ۱۹۹۷ء کو ختم ہونا تھی۔ چنانچہ پانچ اگست کی صبح کو تمام جیل کا عملہ مولانا کو مبارک باد دے چکا تھا کہ آج آپ رہا ہوجائیں گے۔ لیکن صبح آٹھ بجے جھنگ سٹی تھانہ کا سب انسپکٹر عبدالباری وہاں پہنچ گیا اور اس نے کہا۔’’میں آج سے اڑھائی سال قبل جھنگ کے شیخ اقبال کیس میں آپ کی گرفتاری ڈالنے آیا ہوں۔‘‘ اس کیس میں گرفتاری ڈال کر رہائی کا راستہ روک دیا گیا۔
چوہنگ سے اسلام آباد کی طرف
۲۰ اگست شام کے وقت بعض افسران نے آپ کو بتایا کہ آپ کا بلاوا آگیا ہے۔ تیاری کرلیں۔ مولانا محمد اعظم طارقؒ نے فرمایا۔’’میری تیاری ہی تیاری ہے۔ مولانا ؒ فرماتے ہیں۔’’صحیح بات تو یہ ہے کہ چوہنگ کے عقوبت خانہ سے نکلنے پر مجھے اتنی خوشی ہورہی تھی کہ جتنی رہائی پر ہوتی ہے۔ پولیس گاڑیاں مجھے لے کر لاہور ایئرپورٹ پر پہنچیں۔ جب ہم جہاز میں پہنچے تو مجھ سے اگلی نشست پر تحریک جعفریہ پاکستان کے جنرل سیکرٹری افتخار نقوی بیٹھے ہوئے تھے۔ نقوی نے کن انکھیوں سے میری طرف دیکھا۔ پھر آنکھیں بند کرکے کسی تصور میں کھوگیا۔ شاید ۲۳ اپریل کے ٹی وی مذاکرہ والی بات سوچ رہے ہوں۔‘‘
بہرحال مولانا محمد اعظم طارقؒ کو رات گیارہ بجے اڈیالہ راولپنڈی جیل پہنچادیا گیا۔
اڈیالہ سے اٹک منتقلی
آپ کو ۱۰ فروری ۱۹۹۸ء کو اٹک جیل لایا گیا ۔ایک لمبے عرصے تک آپ کو یہاں رکھا گیا۔
بالآخر ۵ اکتوبر ۱۹۹۸ء صبح دس بجے سپرنٹنڈنٹ جیل ملک عطاء محمد نے آپ کو نیند سے بیدار کرکے بتایا۔’’آپ تیار ہوجائیں۔ کچھ علماء کرام آپ سے ملاقات کے لئے آرہے ہیں۔‘‘
مولانا شہید ؒ فرماتے ہیں۔’’میں حیران تھا کہ ایک عرصہ دراز کے بعد یہ کون حضرات ہیں، جنہیں مجھ سے ملنے کی اجازت ملی۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مولانا محمد عبداللہ صاحب، پنجاب بیت المال کے چیئرمین مولانا عبدالرحمن اشرفی صاحب، پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین مولانا عبدالرؤف صاحب اور ہفت روزہ ’’زندگی‘‘ کے مدیر، روزنامہ ’’پاکستان‘‘ کے چیف ایڈیٹر ممتاز صحافی جناب مجیب الرحمن شامی تشریف فرما ہیں۔ ان حضرات نے پُرتپاک انداز میں گلے سے لگایا اور اپنی آمد کا مقصد بیان کیا۔‘‘
جیل میں زہر دینے کی سازش کا انکشاف
۲۶ مارچ جمعہ کی شب ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ اٹک جیل ملک عطاء محمد ، مولانا محمد اعظم طارقؒ کے پاس آئے۔ انہوں نے بتایا۔’’جھنگ سے آپ کے سیکرٹری راشد محمود کا فون آیا ہے کہ شیخ حاکم علی صاحب کو خفیہ ایجنسیوں کے اعلیٰ افسران سے علم ہوا ہے کہ تحریک جعفریہ نے پشاور کے ایک شخص ’’گل زمان‘‘ کو تین کروڑ روپے دیئے ہیں اور اس کا داماد ’’اختیار‘‘ نامی شخص یہاں جیل میں ہے، جس کا آپ کے پاس گاہے بگاہے آنا جانا ہے، اس کی وساطت سے آپ کو زہر دینے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔‘‘
اس اطلاع کے بعد جیل کی ڈیوڑھی پر لائٹ مشین گن نصب کراکر چارچار پولیس اہلکاروں کی ڈیوٹی لگادی گئی۔ ان انوکھے اقدامات سے پوری جیل میں ایک دہشت اور خوف کا ماحول پیدا ہوگیا۔
علامہ علی شیر حیدری ؒ اور آپ کی رہائی کی خوشخبری
مولانا محمد اعظم طارق ؒ ۳۰ مارچ ۱۱ ذی الحجہ کو عشاء کے فرائض پڑھ کر سلام پھیر رہے تھے کہ ایک ملازم نے آواز دی۔ آپ کے ساتھی نے اُٹھ کر اس سے ملاقات کی تو اس نے بتایا کہ ابھی جیل میں حافظ حبیب الرحمن کا فون آیا ہے کہ کل صبح قائدِ سپاہِ صحابہؓ علامہ علی شیر حیدری صاحب رہا ہوجائیں گے اور کل یا پرسوں مولانا محمد اعظم طارق صاحب کو بھی یہاں سے فیصل آباد لے جاکر وہاں سے رہا کردیا جائے گا۔
اٹک جیل سے فیصل آباد روانگی اور رہائی
چنانچہ اگلے ہی روز جرنیلِ سپاہِ صحابہؓ مولانا محمد اعظم طارق ؒ کو اٹک جیل سے فیصل آباد روانہ کیا جارہا تھا۔ جیل میں آپ کے قید ساتھی اور اس وارڈ پر ڈیوٹی دینے والے ملازمین آپ ؒ کو الوداع کہہ رہے تھے۔ آپ ایک ڈبل کیبن پولیس گاڑی میں بیٹھ گئے۔ ڈرائیور سیٹ کے ساتھ ڈی ایس پی سکندر خان بیٹھے تھے۔ جبکہ عقبی نشست پر مولانا کے دائیں جانب اٹک جیل کے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ راجہ خادم حسین تھے، جنہوں نے فیصل آباد تک آپ کے ہمراہ سفر کرنا تھا۔ جبکہ بائیں جانب اٹک تھانہ کے سب انسپکٹر عطاء اللہ صاحب تھے۔ آپ کی گاڑی راولپنڈی ایئر پورٹ پہنچی۔ عشاء کے قریب راولپنڈی ایئرپورٹ سے ہوائی جہاز کے ذریعے فیصل آباد پہنچے۔ آپ کے فیصل آباد پہنچنے سے قبل ہی فیصل آباد ایئرپورٹ پر پولیس کی گاڑیاں پہنچ چکی تھیں۔ یہاں سے آپ کو بڑی جیل بس کے ذریعے سنٹرل جیل منتقل کردیا گیا۔ آ پ کو رہا کرنے کے بجائے آپ کی اسارت کا عرصہ بڑھادیا گیا۔ حکومتی رویہ کے خلاف مولانا شہید ؒ نے احتجاجی طور پر بھوک ہڑتال شروع کردی۔
یہ بھوک ہڑتال کاچھٹا روز تھا کہ آپ بے ہوش ہوگئے۔ ڈاکٹروں نے معائنہ کیا اوراس کی خبر حکام بالا تک پہنچی۔ حقیقت یہ تھی کہ گزشتہ چار سال سے آپ کو بلاوجہ حراست میں رکھا جارہا تھا۔ اور اَب رہائی کی نوید سناکر پھر قید کا عرصہ بڑھادیا گیا تھا۔ مولانا شہید ؒ بھوک ہڑتال کا انداز یوں اپنائے ہوئے تھے کہ دن کو روزہ رکھ لیتے تھے۔ گیارہ اپریل کو قائدین کے مشورہ کے جواب میں آپ نے بھوک ہڑتال ختم کردی۔
دورانِ اسیری مولانا محمد اعظم طارقؒ نے ساڑھے پندرہ ہزار خطوط کے جوابات تحریر فرمائے۔
آخرکار وہ دن آ پہنچا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے مولانا محمداعظم طارق ؒ کی رہائی کے احکامات جاری کئے۔ ۸ جولائی جمعرات کے دن دوپہر کے وقت ڈسٹرکٹ جیل کے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آئے اور انہوں نے اس خبر سے آگاہ کرتے ہوئے آپ کو مبارک باد دی۔ اگلے دن جمعہ تھا۔ ابھی سوا بارہ ہی بجے تھے کہ جیل سپرنٹنڈنٹ اسسٹنٹ اور دیگر افسران ایک بار پھر آ وارد ہوئے اور مولانا شہید ؒ سے کہنے لگے۔’’مولانا! چلیں جی آپ کی رہائی آگئی ہے۔‘‘
حکومت نے اچانک ہی مولانا محمد اعظم طارقؒ کو ہجوم کے خطرے کے پیشِ نظر رہا کردیا تھا۔ اس کے باوجود سینکڑوں کارکن جیل کے دروازے تک پہنچ چکے تھے، جنہوں نے بھرپور طریقے سے آپ کا استقبال کیا۔ پہلے فیصل آباد اور پھر فیصل آباد بائی پاس سے جھنگ کے راستے جھنگ شہر میں آپ داخل ہوئے تو اہلِ شہر نے دکانوں اور مکانوں سے باہر نکل کر فقید المثال استقبال کیا اور پھولوں کی پتیوں کی بارش کردی۔ نمازِ مغرب سے کچھ دیر قبل قریباً سات بجے شام جامع مسجد حق نواز شہید ؒ کے سامنے جاکر یہ جلوس اختتام پذیر ہوا۔ 
چار سال سے زائد اسیری کے اختتام پر مولانا محمد اعظم طارقؒ نے اس پر جس انداز میں تبصرہ کیا، وہ آپ کی اولوالعزمی اور جرأت وہمت کا عکاس ہے۔ ملاحظہ ہو، مولانا محمد اعظم طارق ؒ فرماتے ہیں۔’’میرا اپنے رب کے حضور یہ عہد و پیمان ہے کہ میں اپنی رگِ حیات میں خون کے آخری قطرے تک یہ سفر جاری رکھوں گا۔ یا تو مجھے میری منزل مل جائے گی یا پھر متاعِ دل و جان کو اپنے آقا و مولا ﷺ کے اصحابِ مقدسؓ کی عظمت و تقدیس اور ان کے نافذ کردہ نظامِ حیات کے نفاذ کی کوششوں پہ نچھاور کردوں گا کہ یہ میرا مقصد حیات ہے اور بس!‘‘
پرویز مشرف کا دورِحکومت

جب جنرل پرویز مشرف نے نوازشریف حکومت پر قبضہ کیا، اس وقت مولانا محمد اعظم طارق ؒ جیل میں تھے۔ پھر کچھ دنوں بعد رہا کردیئے گئے۔ جنرل پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں جب سپاہِ صحابہؓ پر پابندی لگی تو آپ کو دوبارہ حراست میں لے لیا گیاتھا۔ مولانا محمد اعظم طارق ؒ نے ۲۰۰۲ء کا الیکشن جیل سے لڑکر شاندار کامیابی حاصل کی۔ پھر کچھ دنوں بعد دوبارہ رہاہوکر عظمتِ اصحابِؓ رسولﷺ کا پھریرا لہرانے لگے۔ چونکہ سپاہِ صحابہؓ پر پابندی لگ چکی تھی، لہٰذا آپ نے ملت اسلامیہ پاکستان کے نام سے ایک نئی سیاسی مذہبی جماعت کے قیام کا اعلان کیا اور مشن جھنگوی کے فروغ میں ہمہ تن مصروف عمل ہوگئے۔ ۱۶ ستمبر ۲۰۰۳ء کو ملتان میں مرکزی شوریٰ کا اجلاس ہوا، جس میں دستور اور منشور پر بحث مکمل کی گئی۔
نصابِ تعلیم اور مولانا شہید ؒ کی صدائے حق
مولانا محمد اعظم طارقؒ اپنی زندگی کے آخری دنوں میں ملک بھر میں شریعت بل کے حوالے سے شریعت کانفرنسوں سے خطاب کررہے تھے۔ خصوصاً شمالی علاقہ جات میں اہل روافض کی طرف سے نصابِ تعلیم سے صحابہ کرامؓ کے نام نکلوانے کے مطالبہ پر سخت احتجاج کررہے تھے کہ ہم روافض کو ایسا ہرگز نہیں کرنے دیں گے۔ دنیا گواہ ہے کہ مولانا محمد اعظم طارق ؒ وہ واحد شخصیت ہیں، جنہوں نے اس مسئلہ پر صدائے حق بلند کی اور روافض کی کارستانیوں کو خاک میں ملادیا۔
مولانامحمد اعظم طارق شہیدؒ کی ذاتی ڈائری سے چند اوراق
جرنیلِ سپاہِ صحابہؓ اپنی زندگی کے ایام کس قدر مصروف ترین انداز میں گزار رہے تھے، اس کا اندازہ آپ، مولانا اعظم طارق شہیدؒ کی زندگی کے آخری دس ایام سے بخوبی لگاسکتے ہیں۔ملاحظہ ہو!
۲۵ ستمبر ۲۰۰۳، شہادت سے ۱۰ دن قبل(جھنگ): بعد از فجر تھوڑا سا ناشتہ کرکے لاہور روانہ ہوئے۔ فاروقِ اعظمؓ سیکرٹریٹ پہنچ کر مولانا شمس الرحمن معاویہ سے ملاقات کی اور ناشتہ کیا۔ پھر سول سیکرٹریٹ جاکر ہوم سیکرٹری سے مل کر ڈاکٹر خادم حسین، مولانا عبدالخالق رحمانی اور مولانا یحییٰ عباسی کے بارے میں بات کی کہ انہیں پولیس فنگر پرنٹس دینے اور ضلع سے باہر بغیر اجازت نہ جانے کا پابند کررہی ہے۔ پھر رینجرز ہیڈ کوارٹر جاکر جنرل حسین مہدی اور فیصل ملک سے ملے ۔منظور کو راستہ سے اور گن مین سیف اللہ کو ہمراہ لیا اور کرنل امجد سے ملنے گئے۔ ایک گھنٹہ تک ان سے ملاقات رہی، ان سے بھی تینوں رہنماؤں کے بارے بات کی۔ پھر باہر نکلا تو راشد آگیا تھا، اس نے بتایا کہ ۲۳ کارکنوں کا مسئلہ حل ہوگیا ہے۔ شیخ یعقوب سے فون پر معذرت کرکے پانچ بجے لاہور سے باہر نکلے اور ساڑھے چھ بجے چک باوا فیصل آباد آکر مغرب ادا کرکے ساڑھے سات بجے گلفشاں کالونی فیصل آبادپہنچے اور پونے نو بجے سے ساڑھے نو بجے تک خطاب کرکے چوکی لکیاں روانہ ہوئے۔ ہمراہ محمد ارشد زکریا منشیا اور رفاقت علی تھے۔ لکیاں میں ایک بجے سے اڑھائی بجے تک خطاب کرکے کھانا کھاکر جھنگ روانہ ہوا اور صبح پانچ بجے پہنچ کر فجر پڑھ کر آرام کیا۔
۲۶ ستمبر ۲۰۰۳ء شہادت سے ۹ دن قبل (جھنگ): چوکی لکیاں
Share this article :
 

Copyright © 2011. Al Asir Channel Urdu Islamic Websites Tarjuman Maslak e Deoband - All Rights Reserved
Template Created by piscean Solutions Published by AL Asir Channel
Proudly powered by AL Asir Channel